مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ غصب اور عاریت کا بیان ۔ حدیث 177

درخت سے گرے ہوئے پھل اٹھانے کا مسئلہ

راوی:

وعن رافع بن عمرو الغفاري قال : كنت غلاما أرمي نخل الأنصار فأتي بي النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " يا غلام لم ترمي النخل ؟ " قلت : آكل قال : " فلا ترم وكل مما سقط في أسفلها " ثم مسح رأسه فقال : " اللهم أشبع بطنه " . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه
وسنذكر حديث عمرو بن شعيب في " باب اللقطة " إن شاء الله تعالى

اور حضرت رافع عمرو غفاری کہتے ہیں کہ جب میں بچہ تھا تو انصار کے کھجوروں کے درختوں پر پتھر پھینکا کرتا تھا ایک دین انصار مجھے پکڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے لڑکے! تو کھجوروں پر پتھر کیوں پھینکتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کھجوریں کھاتا ہوں (یعنی کھجوریں کھانے کے لئے ان کے درختوں پر پتھر مارتا ہوں کسی اور مقصد سے پتھر نہیں پھینکتا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پتھر نہ پھینکا کر وہاں جو کھجوریں درخت کے نیچے گری پڑی ہوں ان کو کھا لیا کرو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور فرمایا کہ اے اللہ تو اس کا پیٹ بھر (ترمذی، ابوداؤد ابن ماجہ)

تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رافع کو درخت کے نیچے گری پڑی کھجوریں کھا لینے کی اجازت اس لئے عطا فرمائی کہ عام طور پر درختوں پر سے گرے ہوئے پھلوں کو کھانے سے کوئی منع نہیں کرتا ۔ خاص طور پر بچے چونک کچے پکے اور گرے پڑے پھلوں کی طرف بہت راغب ہوتے ہیں اس لئے ان کو اس سے کوئی بھی منع نہیں کرتا تاکہ وہ درخت کے نیچے گرے پڑے پھل اٹھا کر کھا لیں ۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ اگر رافع حالت اضطرار میں ہوتے یعنی بھوک کی وجہ سے مجبور ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں گرے پڑے پھلوں ہی کے کھانے کی اجازت دینے پر اکتفاء نہ فرماتے بلکہ درخت پر سے کھجوریں توڑ کر کھا لینے کی بھی اجازت دیدیتے۔
وسنذکر حدیث عمرو بن شعیب فی باب اللقطۃ ان شاء اللہ تعالی۔

یہ حدیث شیئر کریں