مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ خرید و فروخت کے مسائل و احکام ۔ حدیث 22

گانے والی لونڈیوں کی خرید وفروخت کا حکم

راوی:

وعن أبي أمامة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا تبيعوا القينات ولا تشتروهن ولا تعلموهن وثمنهن حرام وفي مثل هذا نزلت : ( ومن الناس من يشتري لهو الحديث )
رواه أحمد والترمذي وابن ماجه وقال الترمذي هذا حديث غريب وعلي بن يزيد الرواي يضعف في الحديث
وسنذكر حديث جابر : نهى عن أكل أهر في باب
ما يحل أكله " إن شاء الله تعالى

حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گانے والی لونڈیوں کو نہ بیچو نہ ان کو خریدو اور نہ لونڈیوں کو گانا سکھاؤ اور ان گانے والی لونڈیوں کی حاصل ہونے والی قیمت مال حرام ہے اور اسی سلسلہ میں یعنی گانے والیوں کو خریدنے کی مذمت میں یہ آیت نازل کی گئی ہے (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ) 31۔ لقمان : 6) یعنی اور انسانوں میں بعض ایسے نادان وغلط کار لوگ ہیں جو کھیل کی بات خریدتے ہیں (احمد ترمذی ابن ماجہ ) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی علی ابن یزید روایت حدیث کے سلسلہ میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔

تشریح :
بعض علماء نے حدیث کے ظاہری الفاظ (وثمنہن حرام) (یعنی ان کی حاصل ہونے والی قیمت مال حرام ہے) کے پیش نظر یہ کہا ہے کہ گانے والی لونڈیوں کو بیچنا جائز نہیں ہے جبکہ بقیہ تمام علماء یہ کہتے ہیں کہ ان کو بیچنا جائز ہے یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے جس کی بناء پر اس کو کسی مسلک کی دلیل قرار دینا مناسب نہیں ہے لیکن اس کے باوجود (ثمنہن حرام) کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ اس حدیث کا مطلب صرف ان کے گانے کی اجرت کی حرمت کو بیان کرنا ہے یعنی ان کے گانے سے حاصل ہونیوالی اجرت مال حرام ہے جیسا کہ کسی شراب فروش یا شراب بنانے والے کے ہاتھ جو انگور فروخت کئے جاتے ہیں کہ اس کی حاصل ہونیوالی قیمت مال حرام کے حکم میں ہوتی ہے نہ کہ فی نفسہ انگور کی قیمت حرام ہوتی ہے اسی طرح گانے والی لونڈیوں کی وہ اجرت جو ان کے گانے کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اس لئے مال حرام ہے کہ وہ ایک حرام ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ اس لئے حرام ہے کہ ان لونڈیوں کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے۔ آیت کریمہ میں کھیل کی بات سے مراد ہیں وہ گانے گیت اور حرام آوازیں جو ذکر اللہ سے باز رکھیں اور گناہ و معصیت کا سبب بنیں چنانچہ کہانیاں جھوٹی باتیں خرافات بکنا ٹھٹھے کی باتی موسیقی سیکھنا اور اسی قسم کی اور تمام فضول و لغو چیزیں بھی اس حکم میں داخل ہیں اس آیت کے نازل ہونے کا پس منظر یہ ہے کہ ایک شخص نصر ابن حارث تھا جو گانیوالی لونڈیاں اس مقصد سے خریدتا تھا کہ ان کے ذریعہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے گمراہ کرے چنانچہ اس کی مذمت میں یہ آیت نازل ہوئی اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ نضر ابن حارث نے عجمیوں کی لکھی ہوئی چند کتابیں خریدی تھیں جن کی جھوٹی سچی کہانیاں پڑھ کر قریش کو سنایا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو تمہارے سامنے قوم عاد وثمود کے قصص بیان کرتے ہیں اور میں تمہارے سامنے رستم و اسفندیار اور بادشاہوں کی کہانیاں سناتا ہوں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت بالا کے ذریعہ اس کی مذمت بیان فرمائی۔

یہ حدیث شیئر کریں