مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ خرید و فروخت کے مسائل و احکام ۔ حدیث 27

مقررہ ذریعہ معاش کو بلاسبب ترک نہ کرو

راوی:

وعن نافع قال : كنت أجهز إلى الشام وإلى مصر فجهزت إلى العراق فأتيت إلى أم المؤمنين عائشة فقلت لها : يا أم المؤمنين كنت أجهز إلى الشام فجهزت إلى العراق فقالت : لا تفعل مالك ولمتجرك ؟ فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " إذا سبب الله لأحدكم رزقا من وجه فلا يدعه حتى يتغير له أو يتنكر له " . رواه أحمد وابن ماجه

حضرت نافع کہتے ہیں کہ میں اپنی تجارت کا مال و اسباب تیار کر کے اپنے ملازموں اور وکیلوں کی سپردگی میں شام اور مصر بھیجا کرتا تھا پھر بعد میں ایک مرتبہ میں نے اپنا تجارتی سامان عراق کی طرف بھیجنے کا ارادہ کیا اور ام المؤمنین حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ ام المؤمنین میں (پہلے تو) اپنا تجارتی سامان شام بھیجا کرتا تھا مگر اب میرا ارادہ ہے کہ اپنا تجارتی سامان لے کر عراق کی طرف جاؤں یہ سن کر حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو تمہیں اور تمہاری تجارت کو کیا ہوا ہے کہ تم شام کے سلسلہ تجارت کو منقطع کرتے ہو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کے رزق کا کوئی سبب کسی صورت میں پیدا کر دے تو اس کو چھوڑنا نہیں چاہئے حتی کہ اس میں کوئی تبدیلی پیدا ہو جائے یا نقصان پہنچنے لگے۔

تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے رزق کا جو بھی جائز ذریعہ ہو مثلا وہ سامان تجارت کہیں باہر بھیجتا ہو جس کے نفع سے اسے رزاق حاصل ہوتا ہو تو وہ اس کو بلاسبب چھوڑے نہیں ہاں اگر کوئی ایسا امر پیش آ جائے جس کی بناء پر اس ذریعے کو ختم کرنا ہی ضروری ہو مثلا نفع ہونا بند ہو جائے یا اصل مال میں نقصان واقع ہونے لگے تو ایسی صورت میں اسے چھوڑ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص ازقسم مباح کسی اچھی چیز کو حاصل کر لے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کو اللہ کی ایک نعمت سمجھ کر اس پر قائم وبرقرار رہے اور بغیر کسی قوی عذر کے اسے چھوڑ کر اس کے بغیر کی طرف مائل نہ ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں