مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ فرائض کا بیان ۔ حدیث 280

انبیاء کسی کے وارث نہیں ہوتے

راوی:

وعن عائشة : أن مولى لرسول الله صلى الله عليه و سلم مات وترك شيئا ولم يدع حميما ولا ولدا فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أعطوا ميراثه رجلا من أهل قريته " . رواه أبو داود والترمذي

یہ بات پہلے ہو چکی ہے کہ آزاد شدہ غلام کے اگر عصبات نسبی نہیں ہوتے تو اس کا حق ولاء اس کو آزاد کرنیوالے کو پہنچتا ہے یعنی اس کے مرنے کے بعد اس کے آزاد کرنیوالا اس کی میراث کا مالک بنتا ہے۔ اس قاعدہ کے مطابق جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آزاد کردہ غلام مر گیا اور اس کا کوئی نسبی دار نہیں تھا تو اس کی میراث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنی چاہئے تھی لیکن انبیاء چونکہ کسی کے وارث نہیں ہوتے اور نہ کوئی شخص انبیاء کا وارث ہوتا ہے اس لئے اس آزاد شدہ غلام کی میراث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں لی بیت المال کے مصرف میں دیدی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء کسی کے وارث کیوں نہیں ہوتے اور ان کی میراث کسی کو کیوں نہیں ملتی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام دنیا کی بے ثباتی دنیا کے مال واسباب سے بے تعلقی اور دنیا کی خواہشات سے اجتناب کی صرف تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ اپنی تعلیم پر خود عمل بھی کرتے تھے اور دنیا داری کی کوئی چیز ان کے لئے اہمیت نہیں رکھتی تھی چنانچہ ان کی حقیقت شناس نظر پر چونکہ غفلت کا پردہ نہیں تھا اس لئے اللہ تعالیٰ کے حقیقی مالک ومتصرف ہونے کا مشاہدہ اور کامل یقین ان کو حاصل ہوتا تھا دنیا کے مال واسباب کے مستعار ہونے اور دنیا میں انسان کی مسافرانہ حالت کا نقشہ ان کے پیش نظر رہتا تھا اس لئے انہیں نہ تو دنیا کے مال واسباب اور یہاں کے سازوسامان سے کوئی دلچسپی ہوتی تھی اور نہ انہیں یہ خواہش ہوتی تھی کہ ہمارے فلاں عزیز ورشتہ دار کا متروکہ ہمیں مل جائے اور نہ ہی اس دنیا سے رخصت ہونے کے وقت انہیں اپنے مال واسباب کے چھوٹنے کا کوئی افسوس ہوتا تھا کیونکہ اول تو انبیاء کے پاس دنیا کا مال واسباب ہوتا ہی کیا تھا اور جو کچھ تھوڑا بہت ہوتا بھی تھا تو اس سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی لہذا انبیاء کی اس شان کے پیش نظر قانون الٰہی نے یہ فیصلہ نافذ کیا انبیاء اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جو تھوڑا بہت سامان واسباب چھوڑ جاتے وہ بھی کسی کی وراثت نہیں ہوگا اور نہ انبیاء اپنی زندگی میں اپنے اقرباء کی میراث سے کوئی حصہ لیں گے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کی شان ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ
نحن معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکنا صدقۃ
یعنی ہم نبیوں کے مال واسباب میں میراث جاری نہیں ہوتی ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہے

یہ حدیث شیئر کریں