مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ فرائض کا بیان ۔ حدیث 289

آزاد شدہ غلم اپنے آزاد کرنیوالے کا وارث ہوتا ہے یا نہیں؟

راوی:

وعن ابن عباس : أن رجلا مات ولم يدع وارثا إلا غلاما كان أعتقه فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " هل له أحد ؟ " قالوا : لا إلا غلام له كان أعتقه فجعل النبي صلى الله عليه و سلم ميراثه له . رواه أبو داود والترمذي وابن ماجه

اور حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ ایک شخص مر گیا جس نے اپنے ایک غلام کے علاوہ کہ جسے وہ آزاد کر چکا تھا اور کوئی وارث نہیں چھوڑا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اس کا کوئی وارث ہے یا نہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ کوئی وارث نہیں ہے البتہ ایک غلام ہے جسے اس نے آزاد کیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میت کی میراث اس کے آزاد کردہ غلام ہی کو دلوا دی۔

تشریح :
چونکہ آزاد شدہ غلام اپنے آزاد کرنیوالے کا وارث نہیں ہوتا اس لئے اس حدیث کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آزاد شدہ غلام کو اس کے آزاد کرنیوالے کی میراث ازراہ تبرع (احسان کے طور پر) دلوائی تھی جیسا کہ حضرت عائشہ کی حدیث نمبر١٤ میں گزرا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لاوراث میت کی میراث کے بارے میں فرمایا کہ اس کی میراث اس کی بستی کے کسی شخص کو دیدو چنانچہ اس موقع پر جو وضاحت کی گئی تھی وہی وضاحت یہاں بھی ہے۔
حضرت شریح اور حضرت طاؤس نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے پیش نظر کہا گیا ہے کہ جس طرح آزاد کرنیوالا اپنے آزاد کردہ غلام کا وارث ہوتا ہے اسی طرح آزاد شدہ غلام بھی اپنے آزاد کرنیوالے کا وارث ہو سکتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں