مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ خرید و فروخت کے مسائل و احکام ۔ حدیث 3

صرف حلال مال کھانے کی فضیلت اور حرام مال سے بچنے کا اثر

راوی:

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين فقال : ( يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا )
وقال : ( يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم )
ثم ذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر يمد يديه إلى السماء : يا رب يا رب ومطعمه حرام ومشربه حرام وملبسه حرام وغذي بالحرام فأنى يستجاب لذلك ؟ " . رواه مسلم

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمام کمی اور عیوب سے پاک ہیں اس پاک ذات کی بارگاہ میں صرف وہی صدقات واعمال مقبول ہوتے ہیں جو شرعی عیوب اور نیت کے فساد سے پاک ہوں ۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ نے جس چیز (یعنی حلال مال کھانے اور اچھے اعمال) کا حکم اپنے رسولوں کو دیا ہے اسی چیز کا حکم تمام مؤمنوں کو بھی دیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت (یا ایہا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا) ( یعنی اے رسولو حلال روزی کھاؤ اور اچھے اعمال کرو) نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (یا ایہا الذین امنوا کلوا من طیبات ما رزقنکم) (یعنی اے مؤمنو تم صرف وہی پاک و حلال رزق کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطاء کیا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور مثال ایک شخص کا حال ذکر کیا کہ وہ طول طویل سفر اختیار کرتا ہے پراگندہ بال اور غبار آلودہ ہے وہ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے اے میرے رب اے میرے رب یعنی وہ اپنے مقاصد کے لئے دعا مانگتا ہے حالانکہ کھانا اس کا حرام لباس اس کا حرام شروع سے اب تک پرورش اس کی حرام ہی غذاؤں سے ہوئی پھر کیونکر اس کی دعا قبول کی جائے۔ (مسلم)

تشریح :
اس ارشاد گرامی میں پہلے تو حلال مال کمانے کی فضیلت اور اس کا حکم بیان کرتے ہوئے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کہ خود پاک ہے اور حلال رزق کو اس کی جناب پاک میں اس وجہ سے ایک نسبت حاصل ہے کہ حلال رزق بھی حرمت کی نجاستوں سے پاک ہوتا ہے تو تقاضاء عبودیت یہی ہے کہ بندہ حلال ہی رزق کھائے تاکہ اس پاک وحلال رزق کی وجہ سے اس بندہ کو بارگاہ الٰہی میں تقرب کی دولت حاصل ہو٫
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ حرام مال سے اجتناب نہ کرنے کا اثر دعا کا قبول نہ ہونا ہے چنانچہ اس بات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال کے ذریعے ظاہر فرمایا ہے کہ ایک شخص حج یا اور عبادات کے لئے طول طویل سفر اختیار کرتا ہے وہ ان مقامات مقدسہ تک پہنچنے میں پوری مشقت وجد وجہد کرتا ہے جہاں مانگی جانے والی دعا باب قبولیت تک پہنچتی ہے یہاں تکہ کہ وہ ان مقامات تک پہنچ جاتا ہے وہاں پہنچ کر وہ اس حال میں دست سوال اٹھاتا ہے کہ سفر کی مشقت وطوالت کی وجہ سے اس کے بال پراگندہ ہیں پورا جسم گرد وغبار سے آلودہ ہے اور تضرع والحاح کی پوری کیفت اس پر طاری ہے ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اس کی دعا بظاہر قبول ہونی چاہئے کیونکہ اول تو ایک عبادت گزار بندہ ہے پھر وہ مسافر بھی ہے اور مسافر کے بارے میں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ اس کی دعا باب قبولیت تک پہنچ کر رہتی ہے دوسرے یہ کہ اس جگہ دعا مانگ رہا ہے جہاں مانگی جانے والی ہر دعا کی لاج رکھی جاتی ہے غرضیکہ قبولیت دعا کے تمام آثار موجود ہیں مگر اس شخص کی دعا قبول نہیں ہوتی کیوں اس لئے کہ جاننے والا جانتا ہے کہ وہ حرام مال سے پرہیز نہیں کرتا گویا اس کی ساری محنت ومشقت اور اس کی ساری عبادت وحالت اس کی دعا کو صرف اس لئے مؤثر نہیں بنا سکی وہ حرام مال کھاتا ہے حرام لباس پہنتا ہے اور کمائی کے حرام ذرائع سے اجتناب نہیں کرتا اس سے معلوم ہوا کہ دعا کی قبولیت حلال رزق پر موقوف ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ دعا کے دو بازو ہیں (جن کے سہارے وہ دعا باب قبولیت تک پہنچتی ہے) ایک تو اکل حلال دوسرا صدق مقال یعنی حلال کھانا اور سچ بولنا۔

یہ حدیث شیئر کریں