مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ نکاح کا بیان ۔ حدیث 312

عورت کے ولی کے لئے ایک ضروری ہدایت

راوی:

وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إن لا تفعلوه تكن فتنة في الأرض وفساد عريض " . رواه الترمذي

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے پاس کوئی شخص نکاح کا پیغام بھیجے اور تم اس شخص کی دینداری اور اس کے اخلاق سے مطمئن ہو تو اس کا پیغام منظور کر کے اس سے نکاح کر دو اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین پر فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو جائے گا ( ترمذی)

تشریح :
یہ ارشاد گرامی دراصل عورتوں کے سرپرست اور ولیوں سے ایک خطاب اور ان کے لئے ایک ضروری ہدایت ہے کہ اگر کوئی دیندار اور اچھے اخلاق واطوار کا حامل شخص تمہاری بیٹی یا تمہاری بہن وغیرہ سے نکاح کا پیغام بھیجے تو منظور کر لو اور اس سے نکاح کر دو اگر ایسا نہ کرو گے بلکہ ایسے شخص کے پیغام کو نظر انداز کر کے کسی مالدار یا ثروت دار شخص کے پیغام کی انتظار میں رہو گے جیسا کہ اکثر دینداروں کی عادت ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اکثر عورتیں بغیر خاوند کے بیٹھی رہ جائیں گی اور اکثر مرد بغیر بیوی کے پڑے رہیں گے اس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ بدکاری اور برائیوں کا عام چلن ہو جائے گا بلکہ ان عورتوں کے سرپرست اور ولی بڑی بری قسم کی عار وغیرت میں مبتلا ہوں گے پھر جو لوگ ان کو عار اور غیرت دلائیں گے وہ ان سے لڑنے جھگڑنے لگیں گے آخرکار اس برائی وفحاشی اور لڑائی جھگڑے سے ایک ہمہ گیر فتنہ وفساد کی شکل پیدا ہو جائے گی۔
طیبی کہتے ہیں کہ ایک طرح سے یہ حدیث حضرت امام مالک کی دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کفائت زوجین میں سے ایک دوسرے کا کفو ہونے کا لحاظ صرف دین کے وصف میں کیا جائے گا گویا ان کے نزدیک ایک دوسرے کا کفو صرف دین میں ہو سکتا ہے جبکہ علماء کی اکثریت کا مسلک یہ ہے کہ ان چاروں اوصاف میں ایک دوسرے کا کفو شریک ہونے کا لحاظ کیا جائے (١) دین حریت نسب پیشہ چنانچہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کافر سے نہ کیا جائے نہ کسی غیر معلوم النسب سے کیا جائے ۔ اور کسی سودا گر یا اچھے پیشے والے کی بیٹی کا نکاح کسی حرام یا مکروہ پیشہ والے سے نہ کیا جائے ۔ لیکن اس بارے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اگر کسی عورت کا ولی اور خود وہ عورت کسی غیرکفو والے سے نکاح کرنے پر راضی ہو جائے تو نکاح صحیح ہو جائے گا ۔

یہ حدیث شیئر کریں