مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ نکاح کے ولی اور عورت سے نکاح کی اجازت لینے کا بیان ۔ حدیث 354

اولاد کے تئیں باپ کے فرائض

راوی:

وعن أبي سعيد وابن عباس قالا : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه "

اور حضرت ابوسعید اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو چاہئے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے اور اسے نیک ادب سکھائے (یعنی اسے شریعت کے احکام و آداب و زندگی کے بہترین طریقے سکھائے تا کہ وہ دنیا و آخرت میں کامیاب و سربلند ہو ) اور پھر جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کا نکاح کر دے ۔ اگر لڑکا بالغ ہو اور غیر مستطیع ہو اور اس کا باپ اس اس کا نکاح کرنے پر قادر ہونے کے باوجود اس کا نکاح نہ کرے اور پھر وہ لڑکا برائی میں مبتلا ہو جائے یعنی جنسی بے راہ روی کا شکار ہو جائے) تو اس کا گناہ باپ پر ہوگا۔

تشریح :
صالح معاشرہ کی حقیقی بنیاد وہ نوخیز ذہن ہیں جو اپنے والدین اور سرپرست کی آغوش پرورش میں اعمال و کردار کی بنیادی تربیت حاصل کرتے ہیں اگر اس بنیادی تربیت کا فقدان ہوتا ہے تو کائنات انسانی کا ہر طبقہ بھیانک قسم کی برائیوں سے متاثر ہوتا ہے کیونکہ آگے چل کر یہی نوخیز معاشرہ کا فعال جزء بنتے ہیں اور ان کا ایک ایک فعل و عمل اپنے اثرات پیدا کرتا ہے۔
آج کے دور میں فحاشی و بے حیائی اور جنسی بے راہ روی کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ جو بھی نئی نسل سامنے آتی ہے وہ اعمال و کردار اور ذہن و عقیدہ کی اس بنیادی تربیت سے یکسر محروم رہتی ہے جو والدین اور سرپرستوں کے زیرسایہ ملنی چاہئے ۔ اسی لئے یہ حدیث اس اہم نکتہ کی طرف متنبہ کر رہی ہے اور والدین کو ان کے اس فریضہ سے آگاہ کر رہی ہے کہ جب ان کے لڑا پیدا ہو تو پہلے وہ اس کا اچھا نام رکھیں کیونکہ اچھا نام پوری زندگی پر اچھے اثرات مرتب کرتا ہے پھر جب وہ ہوش سنبھا لے تو اس کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دیں بایں طور کہ اسے دین کی تعلیم دلوائیں اسلامی احکام و آداب سے روشناس کرائیں اور اسے زندگی کے اعلی اصول اور اچھے طریقوں کے سانچے میں ڈھا لیں تا کہ سب سے پہلے تو اس کا قلب و دماغ نیکی و برائی کے امتیاز کو جان لے اور پھر اس کا کردار اس پختگی کے حامل ہو جائے جو زندگی کے ہر راستہ پر اسے نیکی و بھلائی ہی کی طرف لے جائے۔
جب تعلیم و تربیت کا یہ مرحلہ گزر جائے اور وہ لڑکا بالغ ہو جائے تو اس کے بعد والدین کا بڑا فریضہ یہ ہے کہ اس کی شادی کی طرف فورًا متوجہ ہوں تاکہ وہ مرد زندگی کی وجہ سے جنسی جذبات کی مغلوبیت کا شکار ہو کر برائیوں کے راستہ پر نہ لگ جائے چنانچہ اس فریضہ کی اہمیت کو بتانے اور اس بات کو بتانے اور اس بات کی تاکید کے لئے بطور زجر وتہدید یہ فرمایا گیا کہ اگر کسی شخص نے اپنے بالغ لڑکے کی شادی نہیں کی اور وہ لڑکا جنسی بے راہ روی کا شکار ہو کر بدکاری میں مبتلا ہو گیا تو اس کا گناہ اور وبال باپ پر ہوگا۔ اس بارے میں غلام اور لونڈی کا بھی وہی حکم ہے جو لڑکے کا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں