مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ باری مقرر کرنے کا بیان ۔ حدیث 453

اپنی بیویوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن مباشرت

راوی:

عن عائشة رضي الله عنها أنها كانت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم في سفر قالت : فسابقته فسبقته على رجلي فلما حملت اللحم سابقته فسبقني قال : " هذه بتلك السبقة " . رواه أبو داود

حضرت عائشہ جو ایک سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھیں کہتی ہیں کہ اس سفر میں ایک موقع پر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنے پیروں کے ذریعہ دوڑی یعنی ہم دونوں نے دوڑ میں باہم مقابلہ کیا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے نکل گئی پھر جب میں عرصہ دراز کے بعد فربہ ہو گئی تو پھر ہم دونوں کی دوڑ ہوئی اور اس مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے آگے نکل گئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس مرتبہ میرا آگے نکل جانا پہلی مرتبہ تمہارے آگے نکل جانے کے بدلہ میں ہے ۔ یعنی پہلی مرتبہ تم جیت گئی تھیں اس مرتبہ میں جیت گیا لہٰذا دونوں برابر رہے ۔ (ابو داؤد)

تشریح :
" اپنے پیروں کے ذریعہ" سے اس بات کو مؤ کد کرنا مقصود ہے کہ میں کسی سواری پر بیٹھ کر نہیں دوڑی تھی بلکہ اپنے پیروں پر دوڑی تھی چنانچہ طیبی نے یہی فرمایا ہے کہ اس جملہ سے تاکید مقصود ہے جیسا کہ کوئی یوں کہے کہ میں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے یا میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے۔
یہ روایت اپنی بیویوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن معاشرت کی ایک مثال ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ازواج کے ساتھ ایک پر مسرت اور خوشگوار زندگی بسر کرتے تھے اور اپنی بیویوں کے حق میں انتہائی مہربان اور ہنس مکھ تھے ۔ نیز اس روایت میں امت کے لئے بھی یہ سبق ہے کہ اپنی عائلی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حسن معاشرت کی پیروی کی جائے اور اپنی بیویوں کے ساتھ ہنسی خوشی اور باہمی پیار و محبت کے ساتھ رہا جائے ۔
قاضی خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سباق یعنی باہمی دوڑ وغیرہ کا مقابلہ چار چیزوں میں جائز ہے اونٹ میں، گھوڑے خچر میں، تیر اندازی میں اور پیادہ پا چلنے دوڑے نے میں ۔ نیز یہ مقابلہ اگر کسی شخص سے کسی شرط کے ساتھ ہو تو وہ ایسی صورت میں جائز ہوگا جب کہ دونوں مقابل میں سے صرف ایک طرف سے شرط ہو یعنی مثلا زید اور بکر کے درمیان مقابلہ ہوا اور زید بکر سے یہ کہے کہ اگر میں جیت گیا تو میں اتنے روپیہ یا فلاں چیز لے لوں گا اور اگر میرے مقابلہ تم جیت گئے تو تمہیں کچھ نہیں ملے گا اور اگر دونوں طرف سے شرط ہو یعنی دونوں مقابل ایک دوسرے کے ساتھ یہ شرط کریں کہ ہم دونوں میں سے جو بھی جیت جائے گا اسے اتنے روپے یا فلاں چیز ملے گی تو یہ حرام ہے کیونکہ یہ جوا ہو جاتا ہے ہاں اگر دونوں مقابل ایک محلل کو یعنی دونوں کی شرط حلال کرانے والے ایک تیسرے شخص کو اپنے میں شامل کریں تو اس صورت میں دونوں طرف سے شرط بھی جائز ہو جائے گی ۔ محلل کو اپنے میں شامل کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا زید اور بکر آپ میں یہ شرط کریں کہ ہماری باہمی دوڑ میں ہم دونوں سے جو بھی آگے نکل جائے گا تو اپنے روپے یا فلاں چیز اسے مل جائے گی اور اس کے ساتھ ہی وہ ایک تیسرے شخص مثلاً خالد کو بھی اپنی دوڑ میں شامل کر لیں اور یہ طے ہو جائے کہ اگر یہ تیسرا شخص یعنی خالد آگے نکل جائے گا تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔ لہٰذا یہ صورت جائز ہے اور حلال ہے لیکن جائز ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں جیتنے والے کو جو چیز ملے گی وہ اس کے حق میں حلال اور طیب مال ہوگا نہ یہ کہ وہ اس چیز کا شرعی طور پر کوئی استحقاق رکھے گا کیونکہ شریعت کی نظر میں جیتنے والا محض اس مقابلہ سے اس روپیہ پر کوئی قانونی حق نہیں رکھتا دوڑ کے انعامی مقابلے جائز ہیں یعنی کسی فرد یا ادارہ کی طرف سے بطور انعام کچھ روپے یا کوئی چیز مقرر کر کے دوڑنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ تم میں سے جو شخص بھی آگے نکل جائے گا اسے یہ روپے یا چیز دی جائے گی فقہاء نے اسے جائز کہا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں