مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ خرید و فروخت کے مسائل و احکام ۔ حدیث 5

مشتبہ چیزوں سے بھی اجتناب کرنا چاہئے

راوی:

وعن النعمان بن بشير قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " الحلال بين والحرام بين وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس فمن اتقى الشبهاب استبرأ لدينه وعرضه ومن وقع في الشبهات وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه ألا وإن لكل ملك حمى ألا وإن حمى الله محارمه ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله ألا وهي القلب "

اور حضرت نعمان ابن بشیر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلال ظاہر ہے حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے لہذا جس شخص نے مشتبہ چیزوں سے پرہیز کیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو پاک ومحفوظ کر لیا ( یعنی مشتبہ چیزوں سے بچنے والے کے نہ تو دین میں کسی خرابی کا خوف رہیگا اور نہ کوئی اس پر طعن وتشنیع کرے گا اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہوا وہ حرام میں مبتلا ہو گیا اور اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چراتا ہے اور ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چراگاہ میں گھس کر چرنے لگیں ۔ جان لو ہر بادشاہ کی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چراگاہ حرام چیزوں ہیں اور اس بات کو بھی ملحوظ رکھو کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست حالت میں رہتا ہے یعنی جب وہ ایمان و عرفان اور یقین کے نور سے منور رہتا ہے تو اعمال خیر اور حسن اخلاق واحوال کی وجہ سے پورا جسم درست حالت میں رہتا ہے اور جب اس ٹکڑے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے یاد رکھو گوشت کا وہ ٹکڑا دل ہے (بخاری ومسلم)

تشریح :
حلال ظاہر ہے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں تو وہ ہیں جن کا حلال ہونا سب کو معلوم ہے نیک کلام اچھی باتیں وہ مباح چیزیں ہیں جن کو کرنا یا جن کی طرف دیکھنا درست ہے شادی بیاہ کرنا اور چلنا پھرنا وغیرہ وغیرہ اسی طرح حرام ظاہر ہے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا حرام ہونا نص کے ذریعہ بالکل واضح طور پر معلوم ہو گیا ہے جیسے شراب خنزیر مردار جانور٫جاری خون زنا سود جھوٹ غیبت چغل خوری امرد اور اجنبی عورت کی طرف بہ نظربد دیکھنا وغیرہ وغیرہ ایسے ہی کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کی حرمت یا حلت کے بارہ میں دلائل کے تعارض کی بناء پر کوئی واضح حکم معلوم نہیں ہوتا بلکہ یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ یہ حرام ہیں یا حلال ایسی کتنی ہی چیزیں ہیں جن کے حلال ہونے کی دلیلیں بھی ہیں اور حرام ہونے کی بھی اس صورت میں کوئی واضح فیصلہ کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی چیزوں کے بارے میں دونوں طرف کی دلیلوں میں سے کسی ایک طرف کی دلیل کو اپنی قوت اجتہاد اور بصیرت فکر ونظر کے ذریعہ راجح قرار دے کر کوئی واضح فیصلہ کر لیتے ہیں ۔ بہرکیف مشتبہ چیز کے بارہ میں علماء کے تین قول ہیں۔
-1 ایسی چیز کو نہ حلال سمجھا جائے نہ حرام اور نہ مباح یہی قول سب سے زیادہ صحیح ہے اور اسی پر عمل کرنا چاہئے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی چیز سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔
-2 ایسی چیز کو حرام سمجھا جائے
-3 ایسی چیز کو مباح سمجھا جائے
اب ان تینوں اقول کو ذہن میں رکھ کر مشتبہ کو بطور مثال اس طرح سمجھئے کہ مثلًا ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا ایک دوسری عورت نے آ کر کہا کہ میں نے ان دونوں کو اپنا دودھ پلایا ہے اس صورت میں وہ منکوحہ عورت اس شخص کے حق میں مشتبہ ہوگئی کیونکہ ایک طرف تو عورت کا بیان ہے کہ میں نے چونکہ ان دونوں کو دودھ پلایا ہے اس لئے یہ دونوں رضاعی بہن بھئی ہوئے اور ظاہر ہے کہ رضاعی بھائی بہن کے درمیان نکاح درست نہیں ہوتا لہذا اس دلیل کا تو یہ تقاضا ہے کہ اس نکاح کو قطعًا ناجائز کہا جائے مگر دوسری طرف نکاح کے جائز رہنے کی یہ دلیل ہے کہ صرف یہ ایک عورت کی بات ہے جس پر کوئی شرعی گواہی نہیں ہے اس پر کیسے یقین کر لیا جائے کہ یہ عورت صحیح ہی کہہ رہی ہے ہو سکتا ہے کہ یہ محض بدنیتی کی وجہ سے یہ بات کہ کر ان دونوں کے درمیان افتراق کرانا چاہتی ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ نکاح جائز اور درست ہے دلائل کے اس تعارض کی وجہ سے لا محالہ یہی حکم ہوگا کہ یہ ایک مشتبہ مسئلہ ہو گیا ہے اس لئے اس شخص کے حق میں بہتر یہی ہوگا کہ وہ اس عورت کو اپنے نکاح میں نہ رکھے کیونکہ مشتبہ چیز سے اجتناب ہی اولی ہے مشتبہ چیز کی دوسری مثال یہ ہے کہ مثلا ایک شخص کے پاس کچھ روپے ہیں جن میں سے کچھ تو جائز آمدنی کے ہیں اور کچھ ناجائز آمدنی کے اس صورت میں وہ سب روپے اس شخص کے حق میں مشتبہ ہیں لہذا اس کو ان روپیوں سے اجتناب وپرہیز کرنا چاہئے۔
ارشاد گرامی میں حرام چیزوں کو ممنوعہ چراگاہ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح کوئی حاکم کسی خاص چراگاہ کو دوسروں کے لئے منوع قرار دے دیتا ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو اس ممنوعہ چراگاہ سے دور رکھیں اسی طرح جو چیزیں شریعت نے حرام قرار دی ہیں وہ لوگوں کے لئے ممنوع ہیں کہ ان کے ارتکاب سے اجتناب وپرہیز واجب و ضروری ہے اور مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہونے کو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ (منڈیر) پر عام جانور چرانے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح چرواہے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو ممنوعہ چراگاہ سے دور رکھ کر چرائے تا کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چراگاہ میں نہ گھس جائیں اور اگر وہ اپنے جانوروں کو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چرائے گا تو پھر اس بات کا ہر وقت احتمال رہے گا کہ اس کے جانور ممنوعہ چراگاہ میں گھس جائیں جس کے نتیجہ میں اسے مجرم قرار دے دیا جائے گا اسی طرح انسان کو چاہئے کہ وہ مشتبہ چیزوں سے دور رہے تا کہ محرمات حارم چیزوں میں مبتلا نہ ہو جائے اس کے بعد آپ نے مذکورہ بالا تشبیہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جان لو کہ ہر بادشاہ کا ایک ایسا ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے جس میں جانور چرانا جرم سمجھا جاتا ہے (یہ گویا زمانہ جاہلیت کے بادشاہوں اور حکام کے بارہ میں خبر دی ہے یا یہ کہ مسلمانوں میں سے ان بادشاہوں اور حکام کے بارے میں خبر دی ہے جو غیر عادل ہیں کیونکہ کسی علاقہ کی گھاس کو جانوروں کے چرنے سے روک کو ممنوعہ چراگاہ قرار دینا درست نہیں ہے) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ممنوعہ علاقہ حرام چیزیں ہیں کہ جن میں مبتلا ہونا لوگوں کے لئے ممنوع قرار دے دیا گیا ہے لہذا جو کوئی اس ممنوعہ علاقہ میں داخل ہوگا یعنی حرام چیزوں کا ارتکاب کرے گا اسے مستوجب عذاب قرار دیا جائے گا اور پھر ان حرام چیزوں میں بھی بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کے مرتکب کی بخشش ہی نہیں ہو گی جیسے شرک اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہیں کہ چاہے ان کے مرتکب کو بخشے چاہے نہ بخشے البتہ سچے دل کے ساتھ توبہ استغفار سے ہر چیز بخشی جائے گی۔
حضرت شیخ علی متقی نے اس موقع پر یہ ترتیب ضروری مباح مکروہ حرام کفر قائم کر کے لکھا ہے کہ جب بندہ اپنی معاشی تمدنی اور سماجی زندگی کے تمام گوشوں میں اس قدر ضرورت پر اکتفاء کر لیتا ہے جس سے اس کا وجود اور اس کی عزت باقی رہے تو وہ اپنے دین میں ہر خطرہ سے سلامت رہتا ہے مگر جب حد ضرورت سے گزرنے کی کوشش کرتا ہے تو حد مکروہات میں داخل ہو جاتا ہے یہاں تک کہ حرص وہوس حد مکروہات سے نکال کر محرمات کی مد میں داخل کر دیتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا اگلا قدم کفر میں پہنچ جاتا ہے نعوذ باللہ من ذلک۔
حدیث کے آخر میں انسانی جسم میں گوشت کے اس ٹکڑے کی اہمیت بیان کی گئی ہے جسے دل کہا جاتا ہے چنانچہ فرمایا کہ جب وہ ٹکڑا بگڑ جاتا ہے یعنی انکار شک اور کفر کی وجہ سے اس پر ظلمت طاری ہو جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں ارتکاب گناہ ومصیبت کی وجہ سے پورا جسم بگڑ جاتا ہے لہذا ہر عاقل وبالغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کی طرف متوجہ رہے اور اس کو خواہشات نفسانی میں منہمک ہونے سے روکے تاکہ وہ آگے بڑھ کر مشتبہ چیزوں کی حد میں داخل نہ ہو جائے کیونکہ جب دل خواہشات نفسانی کی طرف چل پڑتا ہے تو پھر اللہ کی پناہ وہ تمام حدوں کو پھلانگتا ہوا ظلمت کی آخری حدوں تک پہنچ جاتا ہے۔
آخر میں یہ سمجھ لیجئے کہ یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ بدن کی بھلائی وبہتری حلال غذا پر موقوف ہے کیونکہ حلال غذا سے دل کو صفائی حاصل ہوتی ہے اور دل کی صفائی ہی سے تمام بدن اچھی حالت میں رہتا ہے بایں طور کہ اس کے ایک ایک عضو سے اچھے اعمال ہی صادر ہوتے ہیں اور تمام اعضاء کا برائی کی طرف میلان ختم ہو جاتا ہے۔
اور اب ایک بات یہ جان لیجئے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ حدیث علم ومسائل کے بڑے وسیع خزانے کی حامل ہے نیز جن حدیثوں پر اسلامی شرائع واحکام کا مدار ہے وہ تین ہیں ایک تو حدیث (انما الاعمال بالنیات) دوسری حدیث (من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ) اور تیسری ہی ہے حدیث (الحلال بین) الخ۔

یہ حدیث شیئر کریں