مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ لعان کا بیان ۔ حدیث 519

شیطان، میاں بیوی کو ایک دوسرے سے بدظن کرنے کی کوشش کرتا ہے

راوی:

وعن عائشة : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم خرج من عندها ليلا قالت : فغرت عليه فجاء فرأى ما أصنع فقال : " ما لك يا عائشة أغرت ؟ " فقلت : وما لي ؟ لا يغار مثلي على مثلك ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لقد جاءك شيطانك " قالت : يا رسول الله أمعي شيطان ؟ قال : " نعم " قلت : ومعك يا رسول الله ؟ قال : " نعم ولكن أعانني عليه حتى أسلم " . رواه مسلم

اور حضرت عائشہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ شعبان کی پندرہویں رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے تو حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی غیرت آئی پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے اور میں جس کیفیت میں مبتلا تھی اس کو دیکھا تو فرمایا کہ عائشہ! تمہیں کیا ہوا؟ کیا تم مجھ پر غیرت کرتی ہو؟ میں نے عرض کیا کہ بھلا میری جیسی عورت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے مرد پر غیرت کیوں نہ آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دراصل تمہارے پاس تمہارا شیطان آ گیا ہے یعنی شیطان نے تمہیں شک وشبہ میں مبتلا کر دیا میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میرے ساتھ شیطان ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر حاوی کر دیا ہے یہاں' تک کہ میں اس وسوسہ سے سالم محفوظ رہتا ہوں حتی اسلم کا ترجمہ یہ ہے کہ یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے یعنی میرا تابع ہو گیا ہے ( مسلم)

تشریح :
ایک مرتبہ شعبان کی پندرہویں شب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چپکے سے حضرت عائشہ کے پاس سے اٹھ کر جنت البقیع تشریف لے گئے تا کہ وہاں مردوں کے لئے ایصال ثواب اور دعا و مغفرت کریں لیکن حضرت عائشہ یہ سمجھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے اٹھ کر اپنی کسی اور بیوی کے ہاں چلے گئے ہیں، یہ گویا شیطان کا فریب تھا جس نے انہیں اس شک میں مبتلا کر دیا اس کی وجہ سے ان کو بڑی غیرت آئی ان کی قلبی کیفیت متغیر ہو گئی چنانچہ وہ بھی گھبرا کر اٹھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل پڑیں پھر انہوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل کسی دوسری بیوی کا مکان نہیں ہے بلکہ جنت البقیع مدینہ کا قبرستان ہے) جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے چلے جانیوالے مسلمانوں کے لئے دعاء مغفرت میں مشغول ہیں یقینی بات ہے کہ جس شک وشبہ نے حضرت عائشہ کو اتنا اکسایا اور گھبراہٹ میں مبتلا کیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واپس پہنچنے سے پہلے ہی گھر میں پہنچ جانا چاہتی ہوں گی چنانچہ وہ وہاں سے بھاگی دوڑتی گھر کی طرف چلیں جب گھر میں داخل ہوئی تو کچھ دوڑنے کی وجہ سے اور کچھ ندامت کے سبب سینہ دھونکنی بن گیا اور دم پھولنے لگا ان کے بعد ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آئے اور حضرت عائشہ کی یہ کیفیت دیکھی کہ دم چڑھ رہا ہے اور گھبراہٹ طاری ہے تو فرمایا آخر اتنی گھبراہٹ تم پر کیوں طاری ہو گی کیا تم نے محض اس وجہ سے غیرت محسوس کی کہ میں اس طرح کیوں چلا گیا اس کے جواب میں حضرت عائشہ نے جو کچھ کہا وہ دراصل عورت کے جذبات فطرت کی بڑی حسین اور دلچسپ ترجمانی تھی انہوں نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ مجھ جیسی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے مرد پر غیرت نہ کرے؟ یعنی اگرچہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پناہ محبت حاصل ہے لیکن میری سوکنیں بھی کئی ہیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام ظاہری وباطنی جمال وکمال سے متصف ہیں ایسی صورت میں کیون کر رشک وغیرت میں مبتلا نہ ہوں۔

یہ حدیث شیئر کریں