مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ سود کا بیان ۔ حدیث 62

غیرمثلی چیز کے قرض لینے کا مسئلہ

راوی:

وعن عبد الله بن عمرو بن العاص : أن النبي صلى الله عليه و سلم أمره أن يجهز جيشا فنفدت الإبل فأمره أن يأخذ على قلائص الصدقة فكان يأخذ البعير بالبعيرين إلى إبل الصدقة . رواه أبو داود

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کے بارے میں مروی ہے کہ ایک غزوۃ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ لشکر کا سامان درست کر لو (یعنی لشکر میں شامل ہونے کے لئے سواری اور ہتھیار وغیرہ تیار رکھو) چنانچہ جب اونٹوں کی کمی ہوئی (یعنی جتنے اونٹ تھے وہ اکثر لوگوں میں تقسیم ہو گئے اور کچھ لوگ کہ جن میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص بھی شامل تھے اونٹ حاصل نہ کر سکے) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ کو حکم دیا کہ وہ زکوۃ کے اونٹ کے بدلے میں اونٹ قرض لے لیں چنانچہ حضرت عبداللہ زکوۃ کے اونٹ آنے تک کے وعدے پر دو اونٹ کے عوض ایک اونٹ لے لیا کرتے تھے ( ابوداؤد)

تشریح :
حدیث کا مطلب سمجھنے سے پہلے قرض کے بارے میں ایک بنیادی بات جان لیجئے کہ صرف اسی چیز کا قرض لینا درست ہے جو اپنی مثل رکھنی ہو بایں معنی کہ اسی طرح کی چیز قرض خواہ کو واپس کی جا سکتی ہو جیسے اناج انڈا گوشت اور روپیہ وغیرہ ایسی چیز کو مثلی کہا جاتا ہے اور جو چیز ایسی ہو کہ اسی طرح کی چیز قرض خواہ کو واپس کرنا مشکل ہو تو اس کا قرض درست نہیں ہے جیسے پھل اور جانور وغیرہ ایسی چیز کو غیر مثلی کہتے ہیں۔
اب حدیث کی طرف آئیے حضرت عبداللہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کہ وہ زکوۃ کے اونٹ کے بدلے میں اونٹ لے لیں کا مطلب یہ تھا کہ وہ کسی شخص سے اس شرط پر بطور قرض اونٹ لے لیں کہ جب زکوۃ میں حاصل ہونے والے اونٹ آ جائیں گے تو وہ اس کا قرض ادا کر دیں گے۔ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک چونکہ غیر مثلی چیز کا قرض لینا جائز نہیں ہے اور اونٹ بھی غیر مثلی ہے اس لئے اس حدیث کے بارے میں حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ کو یہ حکم اس وقت دیا تھا جبکہ غیر مثلی چیز کا قرض لینا بھی جائز تھا مگر بعد میں غیر مثلی چیز کے قرض لینے کا جواز چونکہ ختم کر دیا گیا تھا اس لئے یہ حدیث گویا منسوخ ہے۔
لیکن شیخ عبد الحق نے اس حدیث کے حکم کو بیع پر محمول کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جانور کا جانور کے بدلے میں ادھار لین دین جائز ہے جبکہ ہمارے (یعنی حنفی) علماء نے حضرت سمرۃ بن جندب حدیث جو اس سے پہلے گذری ہے) کے مطابق اس کو ممنوع قرار دیا ہے چنانچہ تورپشتی نے کہا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو کی یہ روایت ضعیف ہے جبکہ حضرت سمرۃ کی روایت اس سے کہیں زیادہ قوی ہے اس لئے حنفیہ نے حضرت سمرۃ کی حدیث پر عمل کیا ہے یا پھر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم اس وقت دیا تھا جبکہ وہ ہم جنس چیزوں کا باہمی ادھار لین دین ربا کی قسم میں داخل نہیں تھا لیکن جب لین دین کی یہ صورت ربا قرار پائی تو اس حدیث کا یہ حکم بھی منسوخ قرار پا گیا۔

یہ حدیث شیئر کریں