مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ سود کا بیان ۔ حدیث 67

آج کی بین الاقوامی بے چینی اور اقتصادی بدحالی سود خوروں ہی کی مسلط کی ہوئی ہے

راوی:

بات جب چل نکلی ہے تو پھر سود خوری کے ایک اور پہلو پر بھی نظر ڈال لیجئے ۔ بڑی مصیبت یہ ہے کہ سائنسی ارتقاء اور مادی عروج نے انسان کو یہ لینے کا سلیقہ کیا بخشا کہ سوچنے سمجھنے کے ڈھنگ تک بدل گئے آج کا انسانی ذہن علم ودانش کی فراوانی اور فہم وفراست کی پختگی کے دعوے کے باوجود غور وفکر کے ایک مخصوص نہج سے آگے نہیں بڑھ سکا آج کی دنیا نے انسان کے گرد خالص مادی سانچے میں ڈھلے ذہن جدید کے مصنوعی نظریات کا جو حصار کھینچ دیا ہے اس نے سوجھ بوجھ کی تمام صلاحیتوں کو سیم وزر کے ایک خالص ماحول میں مقید کر دیا ہے اور احساسات فکر ونظر کو حقیقی اچھائی اور برائی کی قوت امتیاز سے محروم کر کے صرف دینا کے وقتی اور ظاہری فائدوں اور تن آسانیوں کا اسیربنا دیا ہے اسی لئے آج ہمیشہ کی تسلیم شدہ صداقتیں قابل انکار ہو گئی ہیں اور ہزاروں سال پرانے اٹل اور حقیقی نظریات قابل شکست وریخت سمجھے جانے لگے ہیں ۔
اسلام کی یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ سود حرام ہے ہر فرد کے لئے ہر طبقہ کے لئے ہر زمانہ کے لئے اور ہر حالت میں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اگرچہ بظاہر پڑھے لکھے ہیں لیکن عہد حاضر کے مصنوعی افکار ونظریات نے انہیں دین وشریعت کے حقیقی راستے سے دور کر رکھا ہے اور ان کے ذہن وفکر پر موجودہ دور کی مخصوص چھاپ نے انہیں جہالت کی وادیوں میں بھٹکا رکھا ہے ان کے نزدیک نہ صرف حرمت سود جیسی مسلمہ حقیقت آج کے زمانہ میں ایک ناقبل عمل چیز ہے بلکہ مادی خوشحالی اور تجارتی کامیابیوں کی راہ میں ایک رکاوٹ بھی ہے ان کے نقطہ نظر سے آج کا معاشی نظام جو سود کی جکڑ بندیوں میں محصور ہے صرف ایک فرد ایک قوم ملک ہی کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کے اقتصادی استحکام اور بنی نوع انسان کی معاشی خوشحالی کا ضامن ہے وہ بڑے بڑے سرمایہ دار ملک جنہوں نے سود کی شکل میں غریب قوموں اور ترقی پذیر ملکوں کی اقتصادیات ومعاشیات کی روح کھینچ کر ان کو دنیا کا گرویدہ بنا دیا ہے ان دیوانوں کی نظر میں بنی نوع انسان کی معاشی فلاح وبہبود اور ان کے اقتصادی اطمینان کے واحد سہارے ہیں یہ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ سرمایہ دار طاقتوں نے غریب ملکوں اور اقتصادی بدحالی کی شکار قوموں کے لئے اپنے خزانوں کے جو منہ کھول رکھے ہیں وہ درحقیقت عالمی بھائی چارگی اور بین الاقوامی اقتصادی خوشحالی کے تئیں ان کے حقیقی جذبات ایثار وہمدردی کا مظہر ہیں حالانکہ اگر ذرا بھی غور وفکر سے کام لیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو کر سامنے آجائیگی کہ یہ سب کچھ اسی ہوس وعیاری کا ترقی یافتہ راستہ ہے جس پر چل کر پہلے تو ایک انسان نے دوسرا انسان کا خون چوسا ہے اور اب اسی راستہ پر گامزن ایک قوم اور ایک ملک دوسری قوموں اور دوسرے ملکوں کا خون چوس رہے ہیں بس فرق اتنا ہی ہے کہ پہلے ایک فرد یا ایک طبقہ سود کی اقتصادی تباہ کاری کا شکار ہوا کرتا تھا اور اسے محسوس بھی کرتا تھا لیکن آج پورے پورے ملک اور پوری پوری قومیں سود کی اقتصادی تباہ کاری کا غیر محسوس طور پر شکار ہو کر اپنے باوقار وجود کو سود خوروں کے پاس رہن رکھ چکی ہیں ۔ جن دانشوروں کی نظر دنیا کے ان اقتصادی منصوبوں پر ہے جن کے تحت سرمایہ دار ممالک پسماندہ قوموں اور ترقی پذیر ملکوں کو ہر سال اربوں ڈالروں کے امدادی قرض دیتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ ممالک کس طرح سودی شکل میں ان غریب ملکوں کی اقتصادی دولت کو دونوں ہاتھو سے لوٹ کر اپنے ملک کے خزانے بھر رہے ہیں۔
اس حقیقت سے کون باخبر اور باہوش انسان انکار کر سکتا ہے کہ ان سود خور ملکوں کی سود خوری نے دنیا کے ان تمام غریب ملکوں کے اقتصادی نظام میں جو شومی قسمت سے اپنے وسائل اور اپنے دست وبازو کی قوت محنت پر بھروسہ نہ کر کے سرمایہ دار ملکوں کے جال فریب میں پھنس گئے ہیں غربت وافلاس اور مالی بدحالی کا ایسا زہر گھول دیا ہے کہ ان تمام ترمعاشی ڈھانچہ اپنی جگہ چھوڑ چکا ہے اور اقتصادی موت کے دروازے پر پہنچ گیا ہے۔ اس صورت حال نے دنیا کے امن وسکون کو بھی متزلزل کر کے رکھ دیا ہے آج آپ کو کتنے ہی ایسے ملک نظر آئیں گے جو ان کی سیاسی اور ملکی پالیسیوں کی بھینٹ پڑھ گئے ہیں کہ ان کی اقتصادی زندگی کا تمام دارومدار انہیں سود خوروں کے امدادی اور سودی قرضوں پر ہے ان مسائل کا حل چونکہ ان کی سیاسی اور اقتصادی پالیسی کے خلاف ہے اس لئے وہ ان کو دنیا پر اس طرح معلق کئے ہوئے کہ آج ان کی وجہ سے قوموں کی قومیں اور ملک کے ملک اپنی داخلی بے چینیوں بے اطمینانیوں اور مایوسیوں کا شکار ہو کر موت وحیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں اس لئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ آج پوری دنیا پر سیاسی بے اطمینانی اور اتقصادی بے چینی کا جو مہیب بادل چھایا ہوا ہے وہ دراصل سود خوروں کا مسلط کیا ہوا ہے جس سے کوندنے والی برق کسی بھی لمحہ بنی نوع انسان کے پورے وجود کو بھسم کر سکتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں