مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان ۔ حدیث 709

ساحر کو قتل کردیا جائے

راوی:

وعن جندب قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " حد الساحر ضربة بالسيف " . رواه الترمذيعن أسامة بن شريك قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أيما رجل خرج يفرق بين أمتي فاضربوا عنقه " . رواه النسائي

اور حضرت جندب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جادوگر کو حد (شرعی سزا ) یہ ہے کہ اس کو تلوار سے قتل کر دیا جائے " (ترمذی)

تشریح :
علماء کا اس بات پر اجماع واتفاق ہے کہ جادو کرنا حرام ہے ۔ ویسے جادو کے مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں ، حضرت امام شافعی تو یہ فرماتے ہیں کہ جادوگر کو قتل کر دیا جائے بشرطیکہ اس کا جادو موجب کفر ہو اور وہ توبہ نہ کرے ۔ حضرت امام ملک اور بعض دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ ساحر کافر ہے ، سحر کفر ہے ، سحر سیکھنا سیکھانا بھی کفر ہے ساحر کو قتل کر دی جائے اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے خواہ اس نے کسی مسلمان پر سحر کیا ہو یا کسی ذمی پر ۔
اور حنیفہ یہ کہتے ہیں کہ اگر ساحر کا یہ عقیدہ ہو کہ کار ساز شیطان کی ذات ہے کہ وہ میرے لئے جو چاہتا ہے کرتا ہے تو وہ کافر ہے اور اگر یہ عقیدہ ہو کہ سحر ، مجرد خیال ہے تو وہ کافر نہ ہوگا بلکہ فاسق ہے اور سحر کا سیکھنا حرام ہے ۔
درمختیار کے حاشیہ طحطاوی میں یہ لکھا ہے کہ سحر کی تین قسمیں ہیں ۔
(١) فرض ۔ (٢) حرام ۔ (٣) جائز اگر کوئی شخص اہل حرب کے ساحر کے توڑ کے لئے سحر سیکھے تو وہ فرض ہے ، اگر کوئی شخص اس مقصد کے لئے سیکھے کہ اس کے ذریعہ میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دے گا تو حرام ہے ، اور اگر اس مقصد کے لئے سیکھے کہ اس کے ذریعہ میاں بیوی کے درمیان پیار و محبت پیدا کرے گا تو جائز ہے ۔
سحر کے کفر ہونے میں اگرچہ حنبلی علماء کے اختلافی اقوال ہیں لیکن تنقیح میں ان کی کتابوں کے حوالہ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ ساحر کی توبہ کا اعتبار نہ کیا جائے ۔ ساحر اپنے سحر کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان پر سحر کرے اس کو قتل کر دیا جائے ۔
سحر کی طرح کہانت ، نجوم ، رمل اور علم شعبدہ کا سیکھنا اور سیکھانا بھی حرام ہے اور اس کے ذریعہ کمایا ہوا مال بھی حرام ہے ۔

حضرت اسامہ ابن شریک کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص امام وقت کے خلاف خروج کرے اور اس طرح وہ میری امت مں تفرقہ ڈالے تو اس کی گردن اڑا دو " (نسائی )

تشریح :
امام وقت ، امت کے اتحاد واجماعیت کا بنیادی محور ہوتا ہے اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہر مسلمان پر اسی لئے لازم ہے کہ اس کی وجہ سے نہ صرف اسلام کی تعلیم اجتماعیت کا تقاضہ پورا ہوتا ہے بلکہ مسلمان ایک جھنڈے کے نیچے متفق ومتحد رہ کر اسلام دشمن ومسلم مخالف طاقتوں کے مقابلہ پر ایک مضبوط چٹان بن جاتے ہیں اور اس طرح وہ اسلام کی شان وشوکت کو باقی رکھنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں ، لیکن اگر کوئی شخص اس اجتماعی دائرہ سے نکلتا ہے تو وہ صرف ایک برائی کا مرتکب نہیں ہوتا بلکہ پوری امت کے اتفاق واتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی اعتراض ہو تو اس کے اس شک وشبہ اور اعتراض کو دور کیا جائے گا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی حرکت سے باز نہ آئے اور اصلاح کی کوئی کوشش اس کو سرکشی وبغاوت کی راہ سے واپس نہ لا سکے تو پھر اس کو مار ڈالا جائے جیسا کہ حضرت علی نے خوارج کے ساتھ کیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں