مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ سود کا بیان ۔ حدیث 72

قرض خواہ قرض دار کا کوئی تحفہ بھی قبول نہ کرے

راوی:

وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا أقرض أحدكم قرضا فأهدى إليه أو حمله على الدابة فلا يركبه ولا يقبلها إلا أن يكون جرى بينه وبينه قبل ذلك " . رواه ابن ماجه والبيهقي في شعب الإيمان

حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو قرض دے اور پھر قرض لینے والا اس قرض دینے والے کے پاس کوئی تحفہ بھیجے یا سواری کے لئے کوئی جانور دے تو وہ قرض دینے والا نہ اس جانور پر سوار ہو اور نہ اس کا تحفہ قبول کرے ہاں اگر قرض دینے والے اور قرض لینے والے دونوں کے درمیان پہلے سے تحفہ یا سواری کے جانور کا لینا دینا جاری ہو تو پھر اس کو قبول کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے (ابن ماجہ بیہقی)

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ قرض خواہ اپنے قرض دار سے تحفہ وہدیہ کے طور پر کوئی بھی چیز قبول نہ کرے ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں سود کا اشتباہ ہو سکتا ہے کیونکہ قرض خواہ کو قرض کے ذریعہ جو بھی منفعت حاصل ہوتی ہے وہ سود کے حکم میں ہے ہاں اگر قرض کے لین دین سے پہلے ہی سے دونوں کے تعلقات کی نوعیت یہ ہو کہ ان کا آپس میں تحفہ تحائف لینے دینے کے رسوم جاری ہوں تو پھر اس صورت میں قرض لینے کے بعد بھی قرض دار کوئی چیز قرض خواہ کے پاس بھیجے تو قرض خواہ اسے قبول کر سکتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں قرضدار اگر کوئی چیز بطور تحفہ وہدیہ قرض خواہ کو دے گا تو اس کا وہ دینا قرض کے دباؤ کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ اپنے سابقہ تعلقات اور پہلے سے جاری رسوم کی بنیاد پر ہوگا۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو کچھ قرض دے رکھا تھا چنانچہ ایک دین جب وہ اپنے قرض دار کے ہاں تقاضہ کے لئے گئے تو اس وقت بڑی سخت دھوپ اور گرمی کی شدید تپش تھی انہوں نے سوچا کہ اگرچہ شرعی طور پر اس کی ممانعت نہیں ہے مگر تقوی اور احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ میں اس کی دیوار کے سائے سے بھی فائدہ حاصل نہ کروں چنانچہ وہ قرض دار بہت دیر کے بعد گھر میں سے نکلا اور حضرت امام صاحب اس وقت تک دھوپ ہی میں کھڑے رہے یہ گویا ان کی احتیاط کا درجہ کمال تھا کہ انہوں نے اپنے قرض دار کی دیوار کے سایہ سے بھی اجتناب کیا۔
مالا بد منہ میں لکھا ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ جو قرض قرض خواہ کو نفع پہنچانے کا سبب بنے وہ ربا ہے لہذا قرض خواہ اپنے قرض دار کی دعوت بھی قبول نہ کرے ہاں اگر قرض سے پہلے سے دونوں کے درمیان ایک دوسرے کی دعوت میں آنے جانے کا معمول چلا آرہا ہو تو پھر اس صورت میں دعوت قبول کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے نیز یہ بھی لکھا ہے کہ قرض خواہ کے لئے اپنے قرضدار کی دیوار کے سائے میں بیٹھنا بھی مکروہ ہے۔
حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا جو شخص کسی کو قرض دے تو وہ اپنے قرضدار سے بطور تحفہ بھی کوئی چیز قبول نہ کرے امام بخاری نے اس روایت کو اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے نیز المنتقی میں بھی اسی طرح کی روایت منقول ہے۔
حضرت ابوبردہ بن ابی موسی تابعی کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ میں آیا اور حضرت عبداللہ بن سلام صحابی سے ملا تو انہوں نے فرمایا کہ تم ایک ایسی سر زمین پر ہو جہاں سود کا بہت رواج ہے لہذا اگر کسی پر تمہارا حق ہو یعنی کوئی تمہارا قرضدار ہو اور وہ تمہیں بھوسے کا ایک گھڑا یا جو کی ایک گٹھڑی یا گھاس کا ایک گٹھا بھی تحفہ کے طور پر دے تو تم اسے قبول نہ کرنا کیونکہ وہ سود کا حکم رکھتا ہے ( بخاری)

تشریح :
علماء لکھتے ہیں کہ (کل قرض جر نفعا فہو ربوا) (یعنی ہر قرض جس میں نفع لیا جائے سود ہے کے اصول کے تحت ہر وہ قرض جس میں کوئی نفع مشروط ہو ربا ہے ۔ اسی طرح قرض دینے والے کو قرض لینے والے سے قرض کے دباؤ یا قرض کی رعایت سے جو بھی نفع حاصل ہوگا وہ سود ہوگا۔
مسئلہ :
اگر قرض خواہ اپنے قرض دار سے قرض کی ادائیگی سے پہلے کوئی نفع حاصل کرے تو دیکھا جائے گا کہ وہ نفع موعود ومشروط ہے یا نہیں اگر وہ نفع موعود ومشروط ہوگا تو اس صورت میں اس کی حرمت میں کوئی شبہ نہیں یعنی وہ نفع سود کے حکم میں ہوگا اور اگر وہ نفع موعود ومشروط نہیں ہوگا تو پھر اس کے بارے میں بھی علماء کے اختلافی اقوال ہیں حضرت امام محمد تو جواز کے قائل ہیں مگر ایک جماعت ممانعت کی طرف مائل ہے مگر بات یہی ہے کہ اگر وہ نفع قرض کے دباؤ یا قرض کی رعایت کی وجہ سے ہوگا یا مہلت وتسامح کی بناء پر حاصل ہوگا تو بہرحال ناجائز ہے ہاں اگر مروت واحسان یا سابقہ تعلقات ومراسم کے تحت ہوگا تو پھر اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
قرض میں لزوم مدت سے منع فرمایا گیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ تعیین مدت سے کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی اس لئے مسئلہ یہ ہے کہ اگر قرض ایک متعین مدت کی شرط کے ساتھ لیا دیا جائے گا تو وہ مدت بحیثیت شرط تو لازم ہو گی مگر بحیثیت قرض لازم نہیں ہوگی اگر قرض خوہ اس مدت سے پہلے اپنا قرض طلب کرے تو اسے یہ حق ہے اور قرضدار کو چاہئے کہ وہ حتی الامکان ادا کرنے کی کوشش کرے۔
اگر کوئی شخص کسی کو قرض دیتے وقت یہ شرط عائد کر دے کہ میرا یہ قرض فلاں شہر میں ادا کرنا تو یہ شرط بطریق لزوم ناجائز ہوگی ۔ بعض لوگ سودی بینکوں میں اپنا روپیہ بطور امانت جمع کر دیتے ہیں اور اس کا نفع وسود نہیں لیتے چونکہ جو روپیہ بنک میں جمع کیا جاتا ہے وہ یقینی طور پر بعینہ محفوظ نہیں رہتا بلکہ کاروبار میں لگا رہتا ہے اس لئے وہ امانت نہیں رہتا بلکہ قرض ہو جاتا ہے گو اس شخص نے سود نہیں لیا مگر اس نے ایک طرح سے قرض کے ذریعہ سود لینے والوں کی اعانت کی اور سود لینے دینے والوں کی اعانت بھی گناہ ہے اس لئے اپنے روپیہ کو بینک میں داخل کرنا بھی درست نہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں