مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ امارت وقضا کا بیان ۔ حدیث 826

ملت کی اجتماعی ہئیت سے علیحدگی اختیار کرنے والے کے بارے میں وعید

راوی:

عن الحارث الأشعري قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " آمركم بخمس : بالجماعة والسمع والطاعة والهجرة والجهاد في سبيل الله وإنه من خرج من الجماعة قيد شبر فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه إلا أن يراجع ومن دعا بدعوى الجاهلية فهو من جثى جهنم وإن صام وصلى وزعم أنه مسلم " . رواه أحمد والترمذي

" حضرت حارث اشعری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں ۔
(١) مسلمانوں کی جماعت کا (قول و عمل اور اعتقاد میں ) اطاعت کرو یعنی ملت کی اجتماعی ہئیت کو بہرصورت برقرار کرو اور سربراہان ملت کی طرف سے جو احکام جاری ہوں ان کو ہر حالت میں تسلیم کرو اور ان کی اطاعت کرو ۔
(٢) امراء علماء (شریعت کے مطابق ) جو ہدایت دیں ان کو سنو اور تسلیم کرو ۔
(٣) علماء کے احکام کی اطاعت و فرمانبرداری کرو (٤) ہجرت کرو (٥) اللہ کی راہ میں جہاد کرو ! جو شخص ملت کی اجتماعی ہئیت سے بالشت بھر بھی الگ ہوا اس نے (گویا ) اسلام کی رسی کو اپنی گردن سے نکال دیا الاّ یہ کہ وہ واپس آجائے اور جس شخص نے پکارا جاہلیت کا سا پکارنا ، وہ (گویا ) دوزخیوں کی جماعت کا فرد ہے اگرچہ وہ روزے رکھے ، نماز پڑھے اور یہ کہے کہ میں مسلمان ہوں ۔" (احمد، ترمذی)

تشریح :
" ہجرت کرو " اس حکم میں " ہجرت " سے مراد ہے کہ دارالکفر میں رہنے والا مسلمان ترک وطن کر کے دار الاسلام چلا جائے یا اگر کسی ایسے مسلم ملک یا شہر میں ہو جو بدعات ومنہیات کا گڑھ ہونے کی وجہ سے " دارالبدعۃ " کے حکم میں ہو تو اس کو چھوڑ کر ملک یا ایسے شہر میں چلا جائے جو سنت دین کا مرکز ہونے کی وجہ سے دارالسنۃ کے حکم میں ہو ! اسی طرح گناہ معصیت کی زندگی کو چھوڑ کر توبہ وانابت الی اللہ کی راہ کو اختیار کر لینا بھی " ہجرت " کے حکم میں ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
المہاجر من ہجر مانہی اللہ عنہ ۔
وہ شخص (بھی ) مہاجر ہے جس نے ان چیزوں کو چھوڑ دیا جس سے اللہ نے روکا ۔"
" اللہ کی راہ میں جہاد کرو " اس حکم میں " جہاد " سے مراد یہ ہے کہ اسلام کی ترقی وشوکت ، دین کی سربلندی اور روئے زمین پر قانون الہٰی کے غلبہ کے لئے اسلام دشمن طاقتوں اور کافروں سے جنگ کرو ، نیز اپنے نفس کو اس کی خواہشات سے باز رکھ کر اس کو مارنا بھی " جہاد " ہے کیونکہ انسان کے ساتھ اس کے نفس کی دشمنی سے زیادہ سخت اور نقصان دہ اور چیز نہیں ہے ۔
" جو شخص ملت کی اجتماعی ہئیت سے بالشت بھر بھی الگ ہو الخ " یعنی جس مسلمان نے اس چیز کو ترک کیا جس پر پوری ملت عمل پیرا ہے جیسے سنت کو اختیار کرنا ، بدعات سے اجتناب کرنا ، امام وامیر کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا اور اگرچہ اس نے ان چیزوں کو بہت معمولی درجے میں ترک کیا ہو تو اس نے گویا اسلام کی فرمانبرداری کا پٹہ اپنی گردن سے نکال دیا یعنی اس نے اسلام کے تئیں اپنے کئے ہوئے عہد کو توڑ دیا اور اپنی اس ذمہ داری کو ختم کر دیا جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس پر واجب تھی ۔ یا یہ کہ خود (اسلام اس سے بری الذمہ ہو گیا ۔ ہاں اگر وہ اپنے اس (فعل ) (ملت کی اجتماعی ہئیت سے علیحدگی ) سے باز آ گیا اور اس نے اپنی بدعملی سے رجوع کر لیا تو پھر وہ پہلے ہی کی طرح اسلام کا ایک فرمانبردار فرد ہو جائے گا ۔
" اور جس شخص نے پکارا جاہلیت کا سا پکارنا الخ " سے مراد یہ ہے کہ جس شخص نے زمانہ جاہلیت کے رسم ورواج کی طرف بلایا اور اس طرح وہ مخلوق کو اسلام مخالف عقائد ونظریات اور باطل رسوم وعادات میں مبتلا کرنے کا باعث ہوا اور بعض حضرات یہ مراد بیان کرتے ہیں کہ اس نے کسی حادثہ و حملہ کے وقت اس طرح لوگوں کو اپنی مدد کے لئے بلایا جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ جب کسی شخص پر دشمن غالب آ جاتا تھا تو اپنی مدد کے لئے لوگوں سے بآواز بلندیوں فریاد کرتا " اے فلاں شخص کے خاندان والو! اے فلاں شخص کے خاندان والو ۔ چنانچہ وہ لوگ اس کی مدد کے لئے دوڑ پڑتے قطع نظر اس بات کے وہ شخص ظالم ہے یا مظلوم ۔"

یہ حدیث شیئر کریں