مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ امارت وقضا کا بیان ۔ حدیث 852

حکمران کے ظلم پر اس کو برا بھلا کہنے کی بجائے اپنے اعمال درست کرو

راوی:

وعن أبي الدرداء قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الله تعالى يقول : أنا الله لا إله إلا أنا مالك الملوك وملك الملوك قلوب الملوك في يدي وإن العباد إذا أطاعوني حولت قلوب ملوكهم عليهم بالرحمة والرأفة وإن العباد إذا عصوني حولت قلوبهم بالسخطة والنقمة فساموهم سوء العذاب فلا تشغلوا أنفسكم بالدعاء على الملوك ولكن اشغلوا أنفسكم بالذكر والتضرع كي أكفيكم ملوككم " . رواه أبو نعيم في " الحلية "

اور حضرت ابودرداء کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اللہ تعالیٰ (حدیث قدسی ) میں ارشاد فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہ ہوں ، بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ (یعنی میرے قبضہ قدرت ) میں ہیں لہٰذا جب میرے (اکثر ) بندے میری اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں (ظالم ) بادشاہوں کے دلوں کو رحمت وشفقت کی طرف پھیر دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حق (عادل ونرم خو) بادشاہوں کے دلوں کو غضبناکی اور سخت گیری کی طرف پھیر دیتا ہوں جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ (بادشاہ ) ان کو سخت عقوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں ، اس لئے (ایسی صورت میں ) تم اپنے آپ کو ان بادشاہوں کے لئے بدعا کرنے میں مشغول نہ کرو بلکہ (میری بارگاہ میں تضرع وزاری کر کے اپنے آپ کو (میرے ) ذکر میں مشغول کرو تاکہ میں تمہارے ان بادشاہوں کے شر سے تمہیں بچاؤں ۔" اس روایت کو ابونعیم نے اپنی کتاب حلیۃ الاولیاء میں نقل کیا ہے ۔"

تشریح :
اس حدیث میں اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ رعایا کے تئیں حکمرانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال وکردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا کے لوگ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات بالعموم راست بازی ونیک کرداری کے پابند ہوتے ہیں تو ان کا ظالم حکمران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور شفیق وکرم گستر بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی وطغیانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات عام طور پر بد کر داری کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان کا عادل ونرم خو حکمران بھی ان کے حق میں غضبناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے لہٰذا حکمران کے ظلم کے ظلم وستم اور اس کی سخت گیری وانصافی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لئے بدعا کرنے کی بجائے یہ راہ اختیار کرنی چاہئے کہ اللہ کی طرف رجوع کیا جائے ، اپنی بداعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ استغفار کیا جائے ، اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجزی وزاری کے ساتھ التجاء فریاد کی جائے اور اپنے اعمال و اپنے معاملات کو مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع کر دیا جائے تاکہ رحمت الٰہی متوجہ ہو اور ظالم حکمران کے دل کو عدل وانصاف اور نرمی وشفقت کی طرف پھیر دے ۔

یہ حدیث شیئر کریں