مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ خرید و فروخت کے مسائل و احکام ۔ حدیث 9

حرام چیزوں کی خرید وفروخت بھی حرام ہے

راوی:

وعن جابر أنه سمع رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول عام الفتح وهو بمكة : " إن الله ورسوله حرم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام " . فقيل : يا رسول الله أرأيت شحوم الميتة ؟ فإنه تطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس ؟ فقال : " لا هو حرام " . ثم قال عند ذلك : " قاتل الله اليهود إن الله لما حرم شحومها أجملوه ثم باعوه فأكلوا ثمنه "

اور حضرت جابر سے روایت ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے شراب مردار خنزیر اور بتوں کی خریدوفروخت کو حرام قرار دیا ہے جب آپ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ہمیں مردار کی چربی کا حکم بھی بتائیے جو کشتیوں پر ملی جاتی ہے نیز اس سے چمڑوں کو چکنا کیا جاتا ہے اور لوگ(گھروں میں) اس سے چراغ جلاتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ مردار کی چربی بھی حرام ہے اس لئے اس سے یہ فائدے اٹھانے جائز نہیں پھر آپ نے اسی وقت یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت فرمائے جب اللہ تعالیٰ نے مردار کی چربی کو حرام قرار دیا تو یہود (نے یہ حیلہ اختیار کیا کہ وہ ) چربی کو پگھلاتے اور بیچ ڈالتے اور پھر اس کی قیمت کھا جاتے ( بخاری ومسلم)

تشریح :
عطاء نے لکھا ہے کہ شراب وغیرہ کے مذکورہ بالا حکم میں باجا بھی داخل ہے کہ اس کی خریدوفروخت بھی جائز نہیں ہے نیز اگر کوئی شخص کسی باجے کو تلف کر دے تو اس پر ضمان یعنی مالک کو اس کی قیمت ادا کرنا واجب نہیں ہوتا ۔
حضرت امام شافعی کا مسلم یہ ہے کہ مردار کی چربی کی خریدوفروخت تو جائز نہیں ہے لیکن اس چربی سے فائدہ اٹھانا یعنی اس کو کھانے اور آدمی کے جسم پر ملنے کے علاوہ اور کام میں استعمال کرنا جائز ہے خواہ کشتی پر ملے خواہ چراغ میں جلائے اور خواہ کسی اور کام میں لائے اسی طرح ان کے مسلک کے مطابق جو گھی یا زیت یا اور کوئی تیل نجاست پڑ جانے کی وجہ سے نجس ہو گیا ہو تو اس کو چراغ میں جلانے یا اس کا صابون بنانا جائز ہے جب کہ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ جس طرح مردار کی خریدوفروخت ناجائز ہے اسی طرح اس سے کسی بھی طرح کا فائدہ اٹھانا یعنی اس کی کسی بھی چیز کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے کیونکہ مردار کی حرمت بطریق عموم ثابت ہے البتہ دباغت کیا ہوا چمڑا اس سے مستثنی ہے کیونکہ اس کا جواز خصوصی طور پر ثابت ہے۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے متبعین علماء نے نجس زیت کو بیچنے کی اجازت دی ہے البتہ ان کے نزدیک نجس تیل کو چراغ میں جلانا بالخصوص مسجد میں جلانا مکروہ ہے۔
حدیث کے آخر میں یہودیوں کی ایک خاص عیاری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جب ان کے لئے مردار کی چربی کو حرام قرار دیا تو انہوں نے یہ حیلہ اختیار کیا کہ وہ چربی کو پگھلا کر اس کو بیچ دیتے تھے اور پھر اس کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والے مال کو اپنے استعمال میں لے آتے اور یہ کہتے تھے کہ اللہ نے تو چربی کھانے سے منع کیا ہے اور ہم چربی نہیں کھاتے بلکہ اس کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والا مال کھاتے ہیں گویا وہ جاہل چربی کو پگھلا کر یہ سمجھتے تھے کہ ہم نے چربی کی حقیقت کو بدل دیا ہے کہ پگھلنے کے بعد وہ چربی نہیں رہ گئی ہے اس لئے اس صورت میں حکم الٰہی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس عیارانہ چال کی وجہ سے ان کو اللہ کی لعنت کا مستحق قرار دیا اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ایسا حیلہ اختیار کرنا کہ جس کے سبب سے حرام کا ارتکاب ہوتا ہو بالکل غلط ہے نیز یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ کسی چیز کی قیمت حکم کے اعتبار سے اسی چیز کے تابع ہے کہ اگر وہ چیز حرام ہوگی تو اس کی قیمت بھی حرام ہوگی اور جو چیز حلال ہوگی اس کی قیمت بھی حلال ہوگی۔

یہ حدیث شیئر کریں