مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جہاد کا بیان ۔ حدیث 930

شہید کی منزل جنت ہے

راوی:

وعنه قال : انطلق رسول الله صلى الله عليه و سلم وأصحابه حتى سبقوا المشركين إلى بدر وجاء المشركون فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " قوموا إلى جنة عرضها السماوات والأرض " . قال عمير بن الحمام : بخ بخ فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما يحملك على قولك : بخ بخ ؟ " قال : لا والله يا رسول الله إلا رجاء أن أكون من أهلها قال : " فإنك من أهلها " قال : فأخرج تمرات من قرنه فجعل يأكل منهن ثم قال : لئن أنا حييت حتى آكل تمراتي إنها الحياة طويلة قال : فرمى بما كان معه من التمر ثم قاتلهم حتى قتل . رواه مسلم

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ (غزوہ بدر کے موقع پر ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ (مدینہ ) روانہ ہوئے اور مشرکوں سے پہلے بدر (کے میدان جنگ ) میں پہنچ گئے پھر (جب اسلامی مجاہدین کے پہنچنے کے بعد ) مشرکین کا لشکر آیا اور (مقابلہ کی تیاری شروع ہوئی ) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " جنت کے راستے پر کھڑے ہو جاؤ ، وہ جنت جس کا عرض زمین وآسمان کے عرض کے برابر ہے (ایک صحابی ) حضرت عمیر ابن حمام انصاری نے (یہ ارشاد سن کر کہا کہ " خوب ! خوب ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم نے خوب خوب کیوں کہا ؟ عمیر نے کہا کہ یا رسول اللہ !میں نے یہ الفاظ (اظہار تعجب یا کسی اور مطلب سے نہیں کہے بلکہ (درحقیقت ان الفاظ کے ذریعہ اپنی اس آرزو کا اظہار کیا ہے کہ میں بھی جنتی بنوں " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اس میں کوئی شک نہیں تم بھی جنتی ہو۔" راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمیر نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ بشارت سن کر اپنے ترکش سے کچھ کھجوریں نکالیں اور ان کو کھانا شروع کیا اور پھر کہنے لگے کہ اگر میں ان (ساری کھجوروں کو کھانے تک زندہ رہا تو زندگی طویل ہوگی چنانچہ انہوں نے ان کھجوروں کو جو ان کے پاس تھیں پھینک دیا اور کفار سے لڑنے لگے یہاں تک کہ شہید ہوگئے ۔" (مسلم )

تشریح :
جنت کے راستے پر کھڑے ہو جاؤ " کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کی راہ کو اختیار کرو جو جنت میں لے جانے کا باعث ہے ۔ اور وہ جہاد ہے ۔
" جس کا عرض زمین وآسمان کے عرض کے برابر ہے " اس ارشاد کے ذریعہ درحقیقت جنت کی وسعت وکشادگی کو بیان کرنا ہے چنانچہ اس مقصد کے لئے ایسی چیز (یعنی زمین وآسمان کے درمیانی فاصلے ) کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس سے زیادہ وسیع وعریض چیز انسان کے فہم میں اور کوئی نہیں آ سکتی ، نیز اس ارشاد میں صرف عرض کو ذکر کیا گیا ہے طول کو بیان نہیں کیا گیا تا کہ انسانی فہم خود اندازہ کر لے کہ جس چیز کا عرض اتنا ہے اس کے طول کا کیا حال ہوگا ۔
تم نے خوب خوب کیوں کہا " گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیال فرمایا کہ عمیر نے جو یہ الفاظ کہے ہیں وہ بغیر کسی نیت وارادہ کے اور بغیر سوچے سمجھے ان کی زبان سے ادا ہوئے ہیں جیسا کہ اس قسم کے الفاظ یا تو اس شخص کی زبان سے صادر ہوتے ہیں جو کسی کی کسی بات پر اپنے ہزل ومزاح اور استہزاء کا اظہار کرتا ہے ۔ یا اپنے قتل کے خوف میں مبتلا ہوتا ہے ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عمیر سے ان الفاظ کی وضاحت طلب کی تو انہوں نے ان دونوں باتوں سے انکار کیا اور اللہ کی قسم کھا کر اپنا اصل مطلب بیان کیا ۔
" تو زندگی طویل ہوگی ۔" سے حضرت عمیر کی مراد یہ تھی کہ اگر میں ساری کھجوریں کھانے کا انتظار کروں اور جب تک جیوں تو زندگی طویل ہو جائے گی ۔ جب کہ آرزو یہ ہے کہ اب ایک منٹ گنوائے بغیر اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دوں اور شہادت کا مرتبہ حاصل کر کے جنت کی راہ پکڑ لوں ۔گویا انہوں نے حصول شہادت کی شوق کی وجہ سے اپنی زندگی کو اور کفار سے نبرد آزمائی میں تاخیر کو اپنے حق میں وبال جانا ۔

یہ حدیث شیئر کریں