مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جن بیوع سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان ۔ حدیث 98

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ایک بیعانہ کا ذکر

راوی:

وعن العداء بن خالد بن هوذة أخرج كتابا : هذا ما اشترى العداء بن خالد بن هوذة من محمد رسول الله صلى الله عليه و سلم اشترى منه عبدا أو أمة لا داء ولا غائلة ولا خبثة بيع المسلم المسلم . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب

حضرت عداء بن خالد بن ہوذہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک تحریر نکال کر دکھائی جس میں یہ لکھا تھا کہ یہ بیع نامہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عداء بن خالد بن ہوذہ کی خریداری سے متعلق ہے عداء نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک غلام یا لونڈی خریدی جس میں کوئی بیماری نہیں ہے کوئی بدی نہیں ہے اور کوئی برائی نہیں ہے عداء نے اس کو اس طرح خریدا ہے جس طرح ایک مسلمان ایک مسلمان سے خریدتا ہے (ترمذی)

تشریح :
ایک غلام یا لونڈی خرید کی "میں لفظ" یا " راوی کے شک کو ظاہر کر رہا ہے یعنی حدیث کے کسی راوی کو شک ہوا ہے کہ اس بیع نامہ میں غلام لکھا ہوا تھا یا لونڈی؟
جس میں کوئی بیماری نہیں ہے "میں بیماری سے مراد جنون جذام اور کوڑھ جیسے موذی امراض ہیں اسی طرح " کوئی بدی نہیں ہے" میں بدی سے مراد وہ عیب ہے جو خریدار کے مال کے نقصان وہلاکت کا باعث بنے جیسے غلام کا چور ہونا یا بھگوڑا ہونا ۔ " اور کوئی برائی نہیں ہے" کا مطلب یہ ہے کہ اس کی خلقت وجبلت میں ایسی کوئی برائی نہیں ہے جس سے بڑے اور غلط اخلاق وافعال پیدا ہوں جیسے اس کا ولدالزنا ہونا یا فاسق یا جھوٹا اور یا جواری ہونا ۔
آخری جملے" ایک مسلمان ایک مسلمان سے خریدتا ہے" سے رعایت وخیر خواہی اور حقوق اسلام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کا یہ تقاضا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ہاتھ ہر معاملہ وعقد میں رعایت و خیر خواہی مروت وہمدردی اور ان حقوق کا جو ایک مسلمان کے تئیں دوسرے مسلمان پر عائد ہوتے ہیں پورا پورا لحاظ رکھے بہرکیف مذکورہ بالا تحریر کا حاصل یہ ہوا کہ یہ غلام اچھا ہے اس میں کوئی عیب نہیں ہے اور خرید وفروخت کے اس معاملہ میں فریقین نے ایک دوسرے کے ساتھ کوئی دغا اور فریب نہیں کیا ہے۔
امام ترمذی نے اس حدیث کو غریب کہا ہے کیونکہ یہ حدیث عباد بن لیث کی سند کے علاوہ کسی سند سے ثابت نہیں ہے نیز محدثین کے نزدیک عباد روایت حدیث میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔
علماء نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد کوئی بیع نہیں کی ہے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بیع کی ہے تو وہ شاذ ونادر کے درجے کی چیز ہے ہاں ہجرت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیع وشراء دونوں کرتے تھے۔
بخاری میں یہ حدیث یوں ہے حدیث (ہذا ما اشتری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من عداء بن خالد) (یعنی یہ بیع نامہ ہے جو عداء بن خالد سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خریداری سے متعلق ہے) گویا بخاری کی روایت سے یہ معلوم ہوا کہ خریدار تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور بیچنے والے عداء بن خالد جب کہ یہاں جو روایت نقل کی گئی ہے وہ اس کے برعکس ہے کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عداء بن خالد خریدار تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیچنے والے۔

یہ حدیث شیئر کریں