مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ غصہ اور تکبر کا بیان ۔ حدیث 1020

خوش خلقی کی اہمیت

راوی:

وعن معاذ قال كان آخر ما وصاني به رسول الله صلى الله عليه وسلم حين وضعت رجلي في الغرز أن قال يا معاذ أحسن خلقك للناس . رواه مالك

" اور حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجھے جن باتوں کی نصیحت و وصیت فرمائی ان میں سب سے آخری وصیت جو آپ نے اس وقت فرمائی جب کہ میں نے (گھوڑے پر سوار ہونے کے لئے اپنا پاؤں رکھا تھا یہ تھی کہ معاذ لوگوں کی تربیت و تعلیم کے لئے خوش خلقی اختیار کرنا۔ (مالک)

تشریح
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ حیات میں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تھا چنانچہ جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا منصب سنبھالنے کے لئے یمن روانہ ہونے لگے تو حضور نے ان کو بہت سی نصیحتیں فرمائیں گھوڑے پر سوار کرایا اور رخصت کرنے کے لئے خود پاپیادہ کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ الفاظ بھی فرمائے کہ معاذ، شاید تم پھر مجھے نہ دیکھ پاؤ چنانچہ معاذ کو اس کے بعد سرکار رسالت پناہ کی زیارت نصیب نہیں ہوئی، وہ یمن ہی میں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا سے پردہ فرما لیا، بہرحال حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مذکورہ بالا روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جس وصیت کا ذکر کیا ہے وہ اسی موقع پر ان کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نصیحت تھی۔
سیوطی کہتے ہیں کہ یہاں " لوگوں" سے مراد وہ لوگ ہیں جو خوش خلقی اور نرمی و مہربانی کے مستحق ہوں ورنہ جہاں تک اہل کفر و فسق اور ظالموں کا تعلق ہے وہ اس دائرہ سے خارج ہیں اور ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنے کا حکم ہے بلکہ سرکش لوگوں کے ساتھ اختیار کی جانے والی سختی درشتی کو ظاہر کرنا ہی حسن خلق میں داخل ہے کیونکہ نہ صرف ان کی تربیت و تہذیب اسی سختی و درشتی پر منحصر ہوتی ہے بلکہ ان کے ساتھ اختیار کئے جانے والے اس رویہ کے ساتھ دوسرے لوگوں کے حالات کی بہتری و سلامتی بھی وابستہ ہوتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ سیوطی کے نزدیک گویا حدیث میں حسن خوش خلقی سے مراد نرمی و مہربانی اور عفو درگزر کا رویہ اختیار کرنا۔

یہ حدیث شیئر کریں