مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ غصہ اور تکبر کا بیان ۔ حدیث 1025

تین خاص باتیں۔

راوی:

وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أكمل المؤمنين إيمانا أحسنهم خلقا . رواه أبو داود والدارمي .وعنه أن رجلا شتم أبا بكر والنبي صلى الله عليه وسلم جالس يتعجب ويتبسم فلما أكثر رد عليه بعض قوله فغضب النبي صلى الله عليه وسلم وقام فلحقه أبو بكر وقال يا رسول الله كان يشتمني وأنت جالس فلما رددت عليه بعض قوله غضبت وقمت . قال كان معك ملك يرد عليه فلما رددت عليه وقع الشيطان . ثم قال يا أبا بكر ثلاث كلهن حق ما من عبد ظلم بمظلمة في غضي عنها لله عز وجل إلا أعز الله بها نصره وما فتح رجل باب عطية يريد بها صلة إلا زاد الله بها كثرة وما فتح رجل باب مسألة يريد بها كثرة إلا زاد الله بها قلة . رواه أحمد

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا بھلا کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی سخت سست باتوں کو سن کر حیرت کرتے اور مسکراتے تھے یہاں تک کہ جب وہ شخص برا بھلا کہنے میں حد سے گزر گیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس کی بعض باتوں کا جواب دیا یعنی انہوں نے بھی اس شخص کو برا بھلا کہا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے اور وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے حضور کے پیچھے پیچھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آ گئے اور خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ جب وہ شخص مجھ کو برا بھلا کہہ رہا تھا آپ وہاں بیٹھے رہے لیکن میں نے جب اس کی بعض باتوں کا جواب دیا تو آپ ناراض ہو گئے اور وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اس میں آپ کے اٹھنے کی کیا حکمت تھی حضور نے فرمایا اصل بات یہ ہے کہ جب تک تم خاموش رہے تو تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو تمہاری طرف سے اس کو جواب دے رہا تھا مگر جب تم نے خود جواب دیا تو شیطان درمیان میں کود پڑا پھر فرمایا تیں باتیں ہیں اور وہ سب حق ہیں ایک تو یہ کہ جو بندہ کسی کے ظلم کا شکار ہوتا ہے محض اللہ کی رضا کے لئے نہ اپنے عجز کی وجہ سے اس ظالم سے چشم پوشی کرتا ہے یعنی اس سے درگزر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سبب یا اس کے اس وصف کے سبب پر دنیا و آخت میں اپنی مدد کے ذریعہ اس بندہ کو مضبوط و قوی بناتا ہے دوسرے یہ کہ جو بھی بندہ اپنی عطاء و بخشش کا دروازہ کھولتا ہے کہ تاکہ اس کے ذریعہ اپنے قرابت داروں اور مسکینوں کے ساتھ احسان و نیک سلوک کرے تو اللہ اس کے عطا و بخشش کے سبب اس کے مال و دولت میں اضافہ کرتا ہے اور تیسرے یہ کہ جو شخص سوال گدائی کا دروازہ کھولتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ اپنی دولت کو بڑھائے تو اللہ اس کو گدائی کے سبب اس کے مال دولت میں کمی پیدا کر دیتا ہے اور اس کو نقصان و بربادی سے دوچار کر دیتا ہے یا اس کو خیر و برکت سے اس طرح محروم کر دیتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے مال میں کمی نقصان کو محسوس کرتا رہتا ہے۔

تشریح
حیرت کرتے اور مسکراتے تھے میں حیرت کا تعلق تو اس شخص کی بدزبانی اور اس میں شرم و حجاب کی کمی سے تھا یا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صبر و تحمل اور ان کے باوقار و بردبار رویہ سے تھا اور مسکرانے کا تعلق اس فرق سے تھا کہ جو آپ نے ان دونوں کے درمیان دیکھ رہے تھے علاوہ ازیں آپ کی نظر ان دونوں کے حق میں مرتب ہونے والے نتیجہ پر تھی کہ وہ شخص تو اپنی بدکلامی کے سبب عذاب کا مستوجب ہو رہا تھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے صبر تحمل کی چشم پوشی کے سبب رحمت الٰہی نازل ہو رہی تھی۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی باتوں کا جواب دیا گویا انہوں نے اس موقع پر جواب دے کر رخصت و اجازت پر عمل کیا جو ایک عام آدمی کے لئے موزوں ہے اس عزیمت کو ترک کیا جو خواص کے مرتبہ و شان کے عین مطابق ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا آیت (جزاء سیئتۃ)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برائی کا بدلہ اس برائی کے مطابق لیا جا سکتا ہے لیکن جو شخص درگزر کرے اور صبر اختیار کرے گویا دونوں پہلوں کی رعایت کی مگر نگاہ نبوت میں چونکہ ان کے لئے وہ مرتبہ کمال مطلوب تھا جو ان کی شان صدیقیت کے مطابق ہے اس لئے ان کا اس شخص کی بعض باتوں کا جواب دینا بھی حضور کو پسند نہیں آیا اور آپ پر وہ کیفیت طاری ہو گئی جو ناراض ہو جانے والے شخص پر ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ مجلس سے اٹھ کر چلے گئے تاکہ ایک طرف تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رویہ پر ناپسندیدگی کا اظہار ہو جائے اور دوسری طرف اللہ کے اس ارشاد پر عمل بھی ہو جائے کہ ، آیت (واذاسمعوا اللغو)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب وہ کوئی لغو بات سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں۔
" شیطان درمیان میں کود پڑا۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا یہ واضح فرمایا کہ جب تم خود جواب دینے لگے تو پھر شیطان کو دخل دینے کو موقع مل گیا اور وہ فرشتہ جو تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا آسمان پر چلا گیا اور تم یہ جانتے ہو کہ جب کسی معاملہ میں شیطان کود پڑتا ہے تو کیا کچھ نہیں ہو جاتا اور وہ بے حیائی و برائی پپر اکسانے کے علاوہ اور کیا کرتا ہے چنانچہ مجھے خوف ہوا کہ کہیں شیطان کا داؤد تم پر نہ چل جائے اور تم اپنے مخالف سے بدلہ لینے میں حد سے زیادہ نہ بڑھ جاؤ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تم جو مظلوم تھے ظالم کی جگہ پر آ جاؤ جب کہ چاہیے یہ کہ تم اللہ کے مظلوم بندے بنو ظالم بندے نہ ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں