مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ توکل اور صبر کا بیان ۔ حدیث 1072

عام عذاب کب نازل ہوتا ہے

راوی:

وعن عدي بن عدي الكندي قال حدثنا مولى لنا أنه سمع جدي رضي الله عنه يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن الله تعالى لا يعذب العامة بعمل الخاصة حتى يروا المنكر بين ظهرانيهم وهم قادرون على أن ينكروه فلا ينكروا فإذا فعلوا ذلك عذب الله العامة والخاصة . رواه في شرح السنة

" حضرت عدی بن عدی کندی کہتے ہیں کہ ہم سے ہمارے ایک آزاد کردہ غلام نے بیان کیا کہ اس نے میرے دادا (حضرت عمیرہ کندی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے بعض افراد کے اعمال بد کے سبب اس کے اکثر افراد کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا (یعنی اگر اس کی قوم کے کچھ افراد بدعملیوں اور احکام الٰہی کی نافرمانیوں میں مبتلا ہوں تو ان کی پاداش میں اور لوگوں کو عذاب میں مبتلا نہیں کیا جاتا) ہاں اگر اس قوم کے لوگ یہ دیکھیں کہ ان کے درمیان بعض افراد کی وجہ سے خلاف شرع امور کا ارتکاب ہو رہا ہے اور وہ ان خلاف شرع امور کی اصلاح و سرکوبی نہ کریں بشرطیکہ وہ اس اصلاح وسرکوبی کی قدرت رکھتے ہوں اور اس صورت حال (یعنی قدرت وطاقت رکھنے کے باوجود سکوت ومداہنت اختیار کرنے) میں قوم کے اکثر لوگ مبتلا ہوجائیں تو پھر اللہ تعالیٰ عام وخاص سب کو عذاب میں مبتلا کردیتا ہے" ۔ (شرح السنۃ)

تشریح :
حدیث کے آخری الفاظ کا حاصل یہ ہے کہ قوم کے ان بعض افراد کو تو ان کی بدعملیوں اور احکام الٰہی کی نافرمانیوں کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے اور باقی افراد کو اس لئے عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے کہ انہوں نے قدرت وطاقت کے باوجود ان بعض افراد کو بدعملیوں سے باز کیوں نہیں رکھا اور برائیوں کو مٹانے کا فریضہ انجام کیوں نہیں دیا۔

یہ حدیث شیئر کریں