مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کھانوں کے ابواب ۔ حدیث 110

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میدہ کی تیار کی ہوئی کوئی چیز نہیں کھائی

راوی:

وعن سهل بن سعد قال : ما رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم النقي من حين ابتعثه الله حتى قبضه الله وقال : ما رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم منخلا من حين ابتعثه الله حتى قبضه قيل : كيف كنتم تأكلون الشعير غير منخول ؟ قال : كنا نطحنه وننفخه فيطير ما طار وما بقي ثريناه فأكلناه . رواه البخاري

اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جب رسول بنایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت سے کبھی میدہ کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کی ، نیز حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جب سے رسول بنایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت سے کبھی چھلنی کو نہیں دیکھا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کی (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مرتبہ رسالت پر فائز ہونے کے وقت اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک میدہ کی تیار کی ہوئی کوئی چیز یا چھلنی کے چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کیا کھاتے کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کی صورت بھی نہیں دیکھی ) حضرت سہیل سے پوچھا گیا پھر آپ لوگ جو (کے بغیر چھنے آٹے کی روٹی ) کس طرح کھاتے تھے ؟ حضرت سہیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ہم جو کو پیسنے کے بعد اس میں پھونک مارتے ، چنانچہ اس میں سے جو چیز اڑنے والی ہوتی (یعنی بھوسی ) وہ اڑ جاتی اور جو چیز باقی رہتی (یعنی آٹا ) اس کو ہم پانی میں گوندھ لیتے ، (اور پھر اس کی روٹی پکا کر ) کھا لیتے ۔" ( بخاری )

تشریح
" اللہ تعالیٰ نے جب سے رسول بنایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ عسقلانی کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان الفاظ کے ذریعہ اس زمانہ کو ذکر کرنے سے احتراز کیا ہے ، جو مرتبہ رسالت پر فائز ہونے سے پہلے گزرا تھا ، اور اس احتراز کا سبب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دو مرتبہ ملک شام کا تجارتی سفر اختیار فرمایا تھا وہ بعثت رسالت کے قبل کے زمانہ ہی کا واقعہ ہے اور اس سفر کے دوران بحیرہ راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میزبانی کا شرف حاصل کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے یہاں دعوت کھائی ، اور چونکہ وہاں کے لوگ خوش حال و مالدار تھے اس لئے بظاہر یہ امکان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے یہاں چیزیں ضرور دیکھی ہوں گی ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت رسالت کے بعد سے اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک جو زمانہ گذارا وہ تنگی معاش اور اقتصادی زبوں حالی کے لئے مشہور و معروف ہے ظاہر ہے کہ اس میں ایسی چیزوں کا کیا ذکر تھا ۔
یہ حدیث دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ طبیعت اور بے تکلف زندگی کی واضح غماز ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کھانے پینے کا اتنا اہتمام بھی عزیز نہیں تھا ، جتنا مالی طور پر ایک معمولی حیثیت کے انسان کے یہاں بھی ہوتا ہے اور یہی وہ بنیادی سبق ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کی طرف متوجہ رہنا محض مقصد آشنا ، بے وقوف اور غافل لوگوں کا شیوہ زندگی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں