مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آرزو اور حرص کا بیان ۔ حدیث 1156

افلاس اور خستہ حالی کی فضیلت

راوی:

عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رب أشعث مدفوع بالأبواب لو أقسم على الله لأبره . رواه مسلم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بظاہر تو پرا گندہ بال اور غبار آلود (یعنی نہایت خستہ حال اور پریشان صورت) نظر آتے ہیں جن کو (ہاتھ یا زبان کے ذریعہ) دروازوں سے دھکیلا جاتا ہے لیکن وہ (خدا کے نزدیک اتنا اونچا درجہ رکھتے ہیں کہ ) اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم کو یقینا پورا کرے۔ " (مسلم)

تشریح
" جن کو دروازوں سے دھکیلا جاتا ہے" اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ واقعتا دنیا داروں کے دروازوں پر جاتے ہیں ان کو وہاں سے دھکیلا جاتا ہے کیونکہ جو لوگ اللہ کے لئے دنیا کی ظاہری زینت و عزت کی چیزوں سے دور رہتے ہیں، ان کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ کوئی ایسا کام کریں گے جس سے ذلت اٹھانا پڑے، بلکہ اس جملہ سے مراد یہ ہے کہ اولیاء اللہ کی روحانی عظمتوں کا راز ان کی شکستہ حالی میں پوشیدہ ہوتا ہے اور ان کا ظاہر، ان کے باطن کا اس حد تک سرپوش ہوتا ہے کہ اگر بالفرض وہ کسی کے گھر جانا چاہیں تو لوگوں کی نظر میں ان کی کوئی قدر و منزلت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو دروازہ ہی پر روک دیا جائے مکان میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ اور ظاہر ہے کہ جب وہ دروازوں سے دھکیلے جا سکتے ہیں تو ان کو مجلسوں اور محفلوں میں آنے سے بطریق اولی روکا جا سکتا ہے اور اس میں حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ ان کی حقیقت لوگوں پر ظاہر ہو اور وہ ایسی حالت میں رہیں جس سے لوگ ان کی طرف مائل و ملتفت ہوں، تاکہ ان کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے کوئی انس و رغبت نہ ہو۔ پس حقیقت میں اللہ تعالیٰ ان پاک نفس بندوں کو دنیا داروں اور ظالموں کے دروازوں پر کھڑے رہنے اور ان کے حرام مال کے کھانے پینے سے محفوظ رکھتا ہے، جیسا کہ کوئی شخص اپنے مریض کو اب و ہوا اور نقصان دہ غذاؤں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ وہ لوگ اپنے مولیٰ کے در کے علاوہ اور کسی دروازے پر حاضری نہیں دیتے اور اپنے کمال استغناء اور بے نیازی کی وجہ سے اپنے پروردگار کے علاوہ کسی دوسرے کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔
" اور اگر وہ اللہ پر قسم کھائیں الخ" کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اللہ پر اعتماد کر کے اور اس کی قسم کھا کر یہ کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں کام کرے گا یا فلاں کام نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو سچا کرتا ہے بایں طور کہ ان کے کہنے کے مطابق اس کام کو کرتا ہے یا نہیں کرتا، جیسا کہ باب الدیت میں اس کے متعلق ایک روایت گزر چکی ہے حاصل یہ کہ وہ لوگ اگرچہ اپنی ظاہری حالت کی وجہ سے دنیا داروں کی نظر میں کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتے مگر حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا مرتبہ اتنا بلند اور اس کی بارگاہ میں ان کی عزت و مقبولیت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ ان کو سچا کرتا ہے اور ان کی قسم پوری کرتا ہے یعنی وہ بات پوری ہو کر رہتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں