مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آرزو اور حرص کا بیان ۔ حدیث 1165

دنیا کی طلب مومن کی شان نہیں

راوی:

وعن عمر قال دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا هو مضطجع على رمال حصير ليس بينه وبينه فراش قد أثر الرمال بجنبه متكئا على وسادة من أدم حشوها ليف . قلت يا رسول الله ادع الله فليوسع على أمتك فإن فارس والروم قد وسع عليهم وهم لا يعبدون الله . فقال أو في هذا أنت يا ابن الخطاب ؟ أولئك قوم عجلت لهم طيبتاتهم في الحياة الدنيا . وفي رواية أما ترضى أن تكون لهم الدنيا ولنا الآخرة ؟ . متفق عليه

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجور کے پات کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدن مبارک اور چٹائی کے درمیان کوئی بچھونا وغیرہ نہیں تھا جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلوئے مبارک پر چٹائی نے بدھیاں ڈال دی تھیں، نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر مبارک کے نیچے جو تکیہ رک رکھا تھا وہ چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، میں نے (سرکار دو عالم کو اس حالت میں دیکھ کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں فرماتے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو مالی وسعت و فراخی عطا فرمائے ؟ فارس اور روم کے لوگوں کو کس قدر وسعت و فراخی عطا کی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی نہیں کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ " ابن خطاب! یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ کیا تم ابھی تک اسی جگہ ہو ( جہاں سے تم شروع میں چلے تھے اور اتنے عرصہ کے بعد بھی تمہارے انداز فکر اور سوچنے سمجھنے کا معیار اتنا آگے نہیں بڑھا جو تم حقیقت تک پہنچ سکو؟ یاد رکھو یہ اہل فارس و روم (اور تمام کفار) وہ لوگ ہیں جن کو تمام نعمتیں اور خوبیاں بس ان کی دنیاوی زندگی ہی میں دے دی گئی ہیں (جب کہ ہمیشہ کی زندگی یعنی آخرت میں ان کو فقر و افلاس ، ذلت و خواری اور خسران و نقصان کے سوا کچھ نہیں ملے گا) " اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ " کیا تم اس پر راضی و مطمئن نہیں ہو کہ ان (اہل فارس و روم اور دیگر کفار) کو دنیا ملے (جو فنا ہو جانے والی ہے) اور ہمیں آخرت ملے (جو اپنی تمام تر نعمتوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
" چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے" یعنی وہی چٹائی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بستر تھا جس کو چارپائی پر ڈال کر اس پر آپ لیٹے ہوئے تھے یا وہ چٹائی زمین پر بچھی ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کھری چٹائی پر استراحت فرما رہے تھے، اور بعض عبارتوں سے یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو چارپائی تھی وہی کھجور کی رسیوں سے بنی ہوئی تھی جیسا کہ چارپائیوں کو بان سے بنا جاتا ہے۔
" رمال" راء کے پیش اور زبر دونوں کے ساتھ اصل میں رمل کی جمع ہے اور مرمول (یعنی بنے ہوئے کے) معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ مخلوق کے معنی میں خلق استعمال ہوتا ہے۔
" لیف" (لام کے زیر اور راء کے جزم کے ساتھ) کھجور کی چھال کو کہتے ہیں! حاصل یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو تکیہ مبارک تھا وہ چمڑے کا تھا اور اس میں روئی وغیرہ کے بجائے کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، چنانچہ جو لوگ غریب و نادار ہوتے ہیں، روئی وغیرہ کا تکیہ بنانا ان کی استطاعت سے باہر ہوتا ہے وہ کھجور کی چھال کو کوٹ کر نرم کر لیتے ہیں اور اس کو تکیہ میں بھر لیتے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امت کے حق میں مالی وسعت اور رزق کی فراخی کی دعا کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو درخواست کی ، اس کی وجہ یہ تھی کہ جب انہوں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقر کو اختیار کر کے اتنی سخت زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس حال میں رکھے ہوئے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقر کو اختیار کر کے اتنی سخت زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس حال میں رکھے ہوئے تو انہوں نے سوچا کہ اگر پوری امت بھی اسی فقر و افلاس میں مبتلا رہی اور اس کو معاشی زندگی کی غرب و دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس امت کے وہ لوگ جو مضبوط عقیدہ و مزاج کے نہیں ہوں گے، اتنی سخت زندگی کی تاب نہیں رکھ پائیں گے اور ناقابل برداشت دشواریوں میں مبتلا ہو جائیں گے لہٰذا انہوں نے ایسے لوگوں کے مناسب حال یہی جانا کہ انہیں مالی وسعت و فراخی عطا ہو جائے۔
لیکن طیبی رحمہ اللہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصل مقصد خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے لئے مالی وسعت و فراخی کی خواہش کرنا تھا، مگر انہوں نے اس بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان عظمت کے مناسب نہیں سمجھا کہ براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اس ادنی اور ناپاک دنیا کی طلب کو ظاہر کریں، جیسا کہ ایک روایت میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک نہایت گرم اور تنگ و تاریک کوٹھڑی میں ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں انہوں نے کوٹھڑی کے کونوں میں نظر دوڑائی تو دیکھا کہ بس چمڑے کے دو چار ٹکڑے اور ایک دو باسن پڑے ہوئے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غربت و خستہ حالی کا یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ ابن خطاب کیوں رو رہے ہو؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) حضور کی حالت دیکھ کر رو رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہوتے ہوئے اس حالت میں پڑے ہوئے ہیں اور قیصر و کسری (جو اللہ کے نافرمان و سرکش بندے ہیں) کس قدر ناز و نعم اور عیش و راحت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس کے بعد روایت کے وہی الفاظ ہیں جو او فی ہذا یا بن الخطاب سے آخرت ، اوپر حدیث میں نقل ہوئے طیبی کی یہ وضاحت بھی اگرچہ حقیقت کے بہت زیادہ قریب ہے لیکن خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ فان فارس و روم قد وسع علیہم کے پیش نظر پہلی توضیح زیادہ مناسب ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں