مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آرزو اور حرص کا بیان ۔ حدیث 1183

وہ باتین جو خزانہ الٰہی میں سے ہیں

راوی:

وعن أبي ذر قال أمرني خليلي بسبع أمرني بحب المساكين والدنو منهم وأمرني أن أنظر إلى من هو دوني ولا أنظر إلى من هو فوقي وأمرني أن أصل الرحم وإن أدبرت وأمرني أن لا أسأل أحدا شيئا وأمرني أن أقول بالحق وإن كان مرا وأمرني أن لا أخاف في الله لومة لا ئم وأمرني أن أكثر من قول لا حول ولا قوة إلا بالله فإنهن من كنز تحت العرش . رواه أحمد

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میرے خلیل (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے مجھ کو ساتھ باتوں کا حکم دیا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حکم تو یہ دیا کہ میں فقراء و مساکین سے محبت کروں اور ان سے قربت رکھوں۔ دوسرا حکم یہ کہ میں اس شخص کی طرف دیکھوں جو دنیاوی اعتبار سے مجھ سے کمتر درجہ کا ہے اور اس شخص کی طرف نہ دیکھوں جو جاہ و مال اور منصب میں مجھ سے بالا تر ہے، تیسرا حکم یہ دیا کہ میں کسی قرابتدار سے ناطے داری کو قائم رکھوں اگرچہ کوئی (قرابت دار) ناطے داری کو منقطع کرے، چوتھا حکم یہ دیا کہ میں کسی شخص سے کوئی چیز نہ مانگوں، پانچواں حکم یہ دیا کہ میں (ہر حالت میں) حق بات کہوں اگرچہ وہ سننے والے کو تلخ اور غیر خوش آئندہ معلوم ہو، چھٹا حکم یہ دیا کہ میں اللہ کے دین کے معاملہ میں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں ملامت کرنے والے کی کسی ملامت سے نہ ڈروں اور سا تو اں حکم یہ دیا کہ میں کثرت کے ساتھ لاحول ولاقوۃ الا باللہ کا ورد رکھوں (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ) پس یہ ساتوں باتین اور عادتیں اس خزانہ کی ہیں جو عرش الٰہی کے نیچے ہے (اور جس سے فیوض و برکات نازل ہوتے ہیں)" (احمد)

تشریح
فانہن کی ضمیر حضرت شیخ عبدالحق رحمہ اللہ نے تو مذکورہ ساتوں باتوں کی طرف راجع کی ہے جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہوا لیکن ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اس ضمیر کا مرجع صرف آخری بات یعنی لاحول ولاقوۃ الا باللہ کو قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ الفاظ (یعنی لاحول الخ) دراصل اس گنج معنوی کا ایک حصہ ہیں جو عرش الٰہی کے نیچے محفوظ رکھا گیا ہے اور گنج معنوی تک اس شخص کے علاوہ اور کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی جس کو اللہ کی طرف سے حول وقوۃ یعنی قدرت و طاقت حاصل ہو۔ یا یہ معنی ہیں کہ یہ الفاظ جنت کے خزانوں میں ایک خزانہ ہیں۔ اس صورت میں " عرش الٰہی کے نیچے" کا مفہوم بھی بالکل واضح ہوگا کیونکہ عرش الٰہی، بالائے جنت ہے، نیز ملا علی قاری نے فرمایا ہے کہ جن شارحین نے انہن کی ضمیر مذکورہ ساتوں باتوں کی طرف راجع کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہ ساتوں باتیں اور عادتیں اس خزانہ کی ہیں جو عرش الٰہی کے نیچے ہے، ایک ایسا قول ہے جو حقیقت سے بعید ہے کیونکہ اس قول کو ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے جب کہ انہن کی ضمیر کو صرف آخری بات یعنی لاحول الخ کی طرف راجع کرنے کی سب بڑی دلیل یہ ہے کہ صحاح ستہ اور دیگر مسند کتابوں میں کثیر طرق سے یہ روایت کیا گیا ہے کہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ جنت کے خزانوں میں ایک خزانہ ہے۔ رہی یہ بات کہ ان الفاظ کو جنت کا خزانہ کس اعتبار سے فرمایا گیا ہے تو اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں ، چنانچہ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ان الفاظ کو خزانہ اس لئے کہا گیا ہے کہ جس طرح خزانہ، عالم لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوتا ہے اسی طرح یہ الفاظ اپنی حقیقت و رفعت اور نفاست پاکیزگی کے اعتبار سے لوگوں کی نظروں سے محفوظ ہیں۔ یا ان الفاظ کو اس لئے خزانہ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہ جنت کے ذخائر میں سے ایک ذخیرہ ہیں۔ اور یا یہ کہ جو شخص ان الفاظ کا ورد رکھتا ہے اس کے لئے نہایت اعلی مرتبہ کا اجر و ثواب جنت میں محفوظ کر دیا جاتا ہے، اس اعتبار سے یہ الفاظ گویا جنت کا ایک خزانہ ہیں حضرت مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ کلمہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ پڑھا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم ان الفاظ کا حقیقی مفہوم بھی جانتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہی بہتر جان سکتے ہیں، تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ) اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے پھرنا اور بچنا صرف اللہ تعالیٰ کی مدد پر منحصر ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد پر منحصر ہے اور اللہ کی اطاعت عبادات پر قادر ہونا صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی جانے والی قدرت وطاقت پر منحصر ہے۔
مشائخ شاذلیہ قدس اللہ اسرارہم نے طالبان حق اور رہر وان طریقت معرفت کو ان الفاظ لاحول ولاقوۃ الا باللہ کے ورد کی بہت وصیت کی ہے اور فرمایا ہے کہ توفیق عمل کی راہ میں اس سے زیادہ معین و مددگار اور کوئی چیز نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں