مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ خدا کی اطاعت و عبادت کے لئے مال اور عمر سے محبت رکھنے کا بیان ۔ حدیث 1206

بخل اور آرزو کی مذمت

راوی:

عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم قال أول صلاح هذه الأمة اليقين والزهد وأول فسادها البخل والأمل . رواه البيهقي في شعب الإيمان

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اس امت کی پہلی نیکی، یقین کرنا اور زہد اختیار کرنا ہے اور اس امت کا پہلا فساد، بخل اور دنیا میں باق رہنے کی آرزو کو دراز کرنا ہے۔ (بیہقی)

تشریح
" یقین" سے مراد ہے اس بات پر کامل اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ رازق ہے اور رزق پہنچانے کا متکفل وضامن ہے، جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (وما من مدابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقہا) یعنی روئے زمین پر ایسا کوئی چلنے والا جاندار نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔
" زہد اختیار کرنے" کا مطلب دنیا کی محبت میں گرفتار ہونے سے بچنا اور دنیا کی نعمتوں و لذتوں سے بے اعتنائی و لاپرواہی برتنا ہے۔ حاصل یہ کہ دین و آخرت کی بھلائی و کامیابی کا مدار تقویٰ پر ہے جو زہد و یقین سے حاصل ہوتا ہے اور دین و آخرت کی خرابی کی جڑ، طمع ولالچ ہے جو بخل اور درازی عمر کی آرزو سے پیدا ہوتا ہے۔
چنانچہ جب حق تعالیٰ کی رزاقیت پر کام اعتقاد ویقین ہوتا ہے تو بخل کا مادہ فساد نہیں پھیلاتا کیونکہ بخل کا سبب وہ بے یقینی ہوتی ہے جو رزق پہنچنے کے تئیں انسان اپنے اوپر طاری کر لیتا ہے یعنی اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ میرے پاس جو مال و زر ہے اگر میں نے اس کو انفاق و ایثار کی صورت میں خرچ کر دیا تو پھر کل کہاں سے کھاؤں گا۔ اسی طرح جب زہد کی راہ اختیار کی جاتی ہے تو دنیا میں باقی رہنے کی تمنا اور آرزوؤں کی درازی ختم ہو جاتی ہے اس لئے یہ فرمایا گیا ہے کہ اس امت کا پہلا فساد بخل اور آرزو ہے۔ کیونکہ یہ دونوں خصلتیں رزاقیت حق پر یقین اور زہد کی ضد ہیں۔
" یقین" کی تعریف :
اس موقع پر یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ " یقین" کا اصل مفہوم کیا ہے؟ چنانچہ حضرت شیخ عبدالوہاب متقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ " حبل المتین فی تحصیل الیقین" میں لکھا ہے کہ " اعتقاد کا جزم کی حد تک پہنچ جانا اور دلیل وبرہان کے ذریعہ اتنا مضبوط و مستند ہو جانا کہ حق کو ثابت کر دے" حکماء ومتکلمین کی اصطلاح میں " یقین" کہلاتا ہے، لیکن صوفیہ کی اصطلاح میں اس مفہوم پر " یقین " کا اطلاق اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ تصدیق دل پر اس حد تک غالب نہ ہو جائے کہ دل پر اس کے تصرف وحکمرانی کا سکہ چلنے لگے۔ یا اس دل کو صرف انہی چیزوں کی طرف مائل کرنے لگے جو شریعت کے مطابق ہوں اور ان چیزوں سے باز رہے جو شرعی احکام کے خلاف ہوں۔ مثلاً موت کا اعتقاد ہر شخص رکھتا ہے اور وہ اعتقاد نہ صرف جزم کی حد تک ہوتا ہے بلکہ دلیل وبرہان کے ذریعہ اتنا مضبوط ومستند ہوتا ہے کہ وہ موت کو ایک اٹل حقیقت بھی ثابت کرتا ہے تو حکماء متکلمین کے نزدیک اس اعتقاد پر یقین کا اطلاق کیا جا سکتا ہے لیکن صوفیاء کے نزدیک وہ اعتقاد حقیقی معنی میں " یقین" نہیں کہلا سکتا اور اس اعتقاد کا حامل " صاحب یقین" شمار نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ اس کے دل پر موت کی یاد غالب نہ ہو، اور موت کا احساس اس حد تک اس پر متصرف وحکمران نہ ہو کہ وہ طاعات کی مشغولیت اور گناہ کے ترک کے ذریعہ ہر وقت موت کے لئے تیار رہے ۔
واضح رہے کہ چار امور ایسے ہیں جو یقین کا محل ہیں۔ یوں تو وہ تمام چیزیں یقین کی متقاضی ہیں جن کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے لیکن ان تمام چیزوں کی اصل اور بنیاد ہونے کی حیثیت سے وہ چار امور اس درجہ کے ہیں کہ ان پر ہر سالک کو یقین رکھنا بنیادی طور پر ضروری ہے۔ ایک تو تو حید، یعنی یہ پختہ اعتقاد رکھنا کہ جو کچھ بھی واقع ہوتا ہے حق تعالیٰ ہی کی قدرت سے واقع ہوتا ہے دوسرے توکل ، یعنی اس بات پر کامل یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ رزق پہنچانے کے متکفل وضامن ہے، تیسرے جزاء سزا کا اعتقاد، یعنی یہ یقین رکھنا کہ ہر عمل کی جزا و سزا مقرر ہے تمام اعمال پر ثواب عذاب کا مرتب ہونا لازمی امر ہے اور چوتھے یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے تمام احوال کیفیات اور تمام حرکات وسکنات سے پوری طرح باخبر اور مطلع ہے پس تو حید کے تئیں یقین کا فائدہ یہ ہوگا کہ مخلوقات کی طرف رغبت و التفات نہیں رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق پہنچنے کے تئیں یقین رکھنے کا فائدہ ہوگا کہ یا تو حصول رزق کی طلب وکوشش میں میانہ روی اختیار کرے گا، یا اگر افلاس وناداری کی صورت میں غذائی ضروریات پوری نہ ہوں گی تو کسی تاسف اور بد دلی میں مبتلا نہیں ہوگا، اعمال کے جزا و سزا کے تئیں یقین رکھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ طاعات وعبادات کی مشغولیت اور اللہ کی رضاو خوشنودی کے حصول میں زیادہ سے زیادہ سعی وکوشش کرے گا اور گناہ ومعصیت کی زندگی سے اجتناب کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے علیم وخبیر ہونے کے تئیں یقین رکھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اپنے ظاہر وباطن کی اصلاح کی طرح زیادہ سے زیادہ متوجہ رہے گا۔ یہ حضرت شیخ عبدالوہاب کے کلام کا خلاصہ تھا۔ اب آخر میں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رزاقیت، رزق پہنچنے، اور اللہ تعالیٰ نے رزق دینے کا جو وعدہ کیا ہے اس پر کامل توکل اعتماد رکھنا، تمام روحانی وباطنی اعلیٰ مراتب میں سے ایک بہت بڑا مرتبہ ہے نیز سالک راہ حق کو یہ مرتبہ اختیار کئے بغیر کوئی چارہ نہیں، اور تمام عبادات وطاعات میں قلبی فروغ واطمینان کا انحصار اس مرتبہ پر ہے۔ امام زمانہ، قطب وقت، حضرت الشیخ ابوالحسن شاذلی رحمہ اللہ نے بڑی عارفانہ بات کہی ہے کہ دو ہی چیزیں ایسی ہیں جو عام طور پر بندہ اور اللہ کے درمیان پردہ کی طرح حائل ہو جاتی ہیں یعنی ان دونوں چیزوں کی وجہ سے بندہ معرفت حق حاصل کرنے سے محروم رہتا ہے ایک تو رزق کا فکر، اور دوسرے مخلوق کا خوف اور ان دونوں میں سے بھی زیادہ سخت پردہ رزق کا فکر ہے۔
امام اصمعی رحمہ اللہ سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دیہاتی کے سامنے سورت والذاریات کی تلاوت شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا آیت (وَفِي السَّمَا ءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ) 51۔ الذاریات : 22) تو اس دیہاتی نے (جو بڑے غور کے ساتھ میری تلاوت سن رہا تھا) ایک دم کہا کہ بس کیجئے۔ اور پھر وہ اپنی اونٹنی کی طرف متوجہ ہوا، اس نے اس اونٹنی کو نحر کیا اور اس کا گوشت کاٹ بنا کر ان تمام لوگوں کے درمیان تقسیم کر دیا جو اس کے آس پاس موجود تھے، اس کے بعد اس نے اپنی تلوار اور کمان اٹھائی اور ان کو بھی توڑ کر پھینک دیا، اور پھر بغیر کچھ کہے سنے وہاں سے اتھ کر چلا گیا ، کافی عرصہ کے بعد میں ایک دن بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا کہ اچانک اس دیہاتی سے ملاقات ہو گئی جو خود بھی طواف کر رہا تھا میں اس کو دیکھ کر حیران رہ گیا، اس کا بدن بالکل سوکھ گیا تھا اور رنگ زرد ہو گیا تھا، اس نے مجھ کو دیکھ کر سلام کیا اور کہنے لگا کہ وہی سورت پھر پڑھیے جو آپ نے اس دن پڑھی تھی چنانچہ میں نے وہ سورت پڑھنی شروع کی اور جب اسی آیت یعنی (وَفِي السَّمَا ءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ) 51۔ الذاریات : 22) پر پہنچا تو اس نے ایک چیخ ماری اور کہا آیت (قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا) 7۔ الاعراف : 44)، اس کے بعد اس نے کہا کہ کچھ اور ؟ (یعنی اب آگے کی آیت پڑھیے) میں نے آگے کی آیت پڑھی ( فَوَرَبِّ السَّمَا ءِ وَالْاَرْضِ اِنَّه لَحَقٌّ ) 51۔ الذاریات : 23) اس نے آیت سن کر پھر ایک چیخ ماری اور کہنے لگا، یا اللہ پاک ہے تیری ذات، وہ کون بد بخت ہے جس نے اللہ کو اتنا غصہ دلایا کہ اس کو قسم کھانی پڑی ؟ اس شخص کی بد بختی کا کیا ٹھکانا ہے کہ پروردگار نے جو کچھ فرمایا اور جو وعدہ کیا اس پر اس نے یقین نہیں کیا یہاں تک کہ پروردگار کو قسم کھا کر اس بات کا یقین دلانا پڑا؟ اس دیہاتی نے تین مرتبہ یہی جملے ادا کئے اور اس کے ساتھ ہی اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔

یہ حدیث شیئر کریں