مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ دکھلاوے اور ریاکاری کا بیان ۔ حدیث 1219

حسن عمل کے ساتھ عمر کی زیادتی درجات کے بلندی کا باعث ہے

راوی:

وعن عبدالله بن شداد قال إن نفرا من بني عذرةثلاثة أتوا النبي صلى الله عليه وسلم فأسلموا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من يكفينيهم ؟ قال طلحة أنا . فكانوا عنده فبعث النبي صلى الله عليه وسلم بعثا فخرج فيه أحدهم فاستشهد ثم بعث بعثا فخرج فيه الآخر فاستشهد ثم مات الثالث على فراشه . قال قال طلحة فرأيت هؤلاء الثلاثة في الجنة ورأيت الميت على فراشه أمامهم والذي استشهد آخرا يليه وأولهم يليه فدخلني من ذلك فذكرت للنبي صلى الله عليه وسلم فقال وما أنكرت من ذلك ؟ ليس أحد أفضل عند الله من مؤمن يعمر في الإسلام لتسبيحه وتكبيره وتهليله

حضرت عبداللہ بن شداد کہتے ہیں ، بنی عذرہ کے قبیلہ کے کچھ لوگ کہ جن کی تعداد تین تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا (اور پھر وہ لوگ حصول دین کی خاطر اور اللہ کی راہ میں ریاضت ومجاہدہ کی نیت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ٹھہر گئے، ان کی مالی حالت چونکہ بہت خستہ تھی اور وہ ضروریات زندگی کی کفالت خود کرنے پر قادر نہیں تھے لہٰذا) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کون ہے جو ان لوگوں کی خبر گیری کے سلسلے میں مجھے بے فکر کر دے؟ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے جو ان لوگوں کی ضروریات زندگی کی کفالت اور ان کی خبر گیری ودلداری کی ذمہ داری برداشت کر سکے، تاکہ مجھے ان کا خبر گیراں بننے کی ضرورت نہ رہے اور میں ان کی طرف سے بے فکر ہو جاؤں) حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ میں اس ذمہ داری کو قبول کرتا ہوں چنانچہ وہ تینوں حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہنے لگے (کچھ دنوں کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی طرح ایک لشکر بھیجا تو اس لشکر کے ساتھ ان تینوں میں سے بھی ایک شخص گیا اور میدان جنگ میں دشمنوں سے لڑتا ہوا شہید ہو گیا، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور لشکر بھیجا اس کے ساتھ دوسرا شخص گیا اور وہ بھی دشمنوں سے لڑتے ہوا شہید ہو گیا، اور پھر تیسرا شخص اپنے بستر پر اللہ کو پیارا ہو گیا اور یہ شص اگرچہ میدان جنگ میں شہیدا ہونے کا موقع نہیں پا سکا لیکن مرابط ضرور تھا، اور میدان جنگ میں دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے کی نیت بھی رکھتا تھا، راوی کہتے یہں کہ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ ان تینوں میں سے دو کی شہادت اور ایک کی قدرتی موت کے بعد ایک دن خواب میں میں نے دیکھا کہ تینوں جنت میں ہیں نیز میں نے دیکھا کہ جو شخص اپنے بستر پر اللہ کو پیارا ہوا تھا وہ تو سب سے آگے ہے اور جو شخص دوسرے لشکر کے ساتھ جا کر شہید ہوا تھا، سب سے آخر میں ہے، چنانچہ ان تینوں کو اس طرح ایک دوسرے کے آگے پیچھے دیکھ کر میرے دل میں خلجان پیدا ہو گیا کہ قاعدہ کے مطابق تو سب سے آگے اور نمایاں اس شخص کے ہونا چاہئے تھا جو پہلے اللہ کی راہ میں شہید ہوا تھا یا یہ کہ دونوں شہید ایک ساتھ برابر ہوتے کیونکہ دونوں شہید ہونے کی حیثیت سے یکساں مرتبہ کے مستحق تھے اور جو شخص اپنے بستر پر فوت ہوا تھا اس کو سب سے آخر میں ہونا چاہئے تھا، لیکن میں نے ان تینوں کو جس ترتیب کے ساتھ دیکھا وہ میرے لئے بڑی تعجب انگیز اور شک وشبہ میں مبتلا کرنے والی تھی چنانچہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے اس خواب کا ذکر کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ خواب اور اس پر میرا رد عمل سن کر فرمایا تو پھر اس میں تمہارے شک وشبہ اور انکار کی باعث کون سی چیز ہے؟ تم نے اپنے خواب میں ان تینوں کو جس ترتیب کے ساتھ دیکھا ہے وہ بالکل موزوں ہے کیونکہ اللہ کے نزدیک اس مسلمان سے زیادہ افضل کوئی نہیں ہے جس نے اسلام کی حالت میں زیادہ عمر پائی اور اس کی وجہ سے اس کو اللہ کی تسبیح وتکبیر اور تہلیل اور دیگر تمام مالی وبدنی عبادتوں کا زیادہ موقع ملا۔

تشریح
ظاہر ہے کہ جس شخص نے بعد میں شہادت پائی اس کی عمر پہلے شہید ہونے والے کی عمر سے زائد ٹھہری ، اور جب اس کی عمر زیادہ ہوئی تو اس کے اچھے عمل بھی زیادہ ہوئے ، لہٰذا پہلے شہید ہونے والے شخص سے اس کا افضل وبرتر ہونا کسی شک وشبہ کا محل نہیں ہو سکتا، رہی اس شخص کی بات جو اپنے دونوں ساتھیوں کے بعد اپنے بستر پر فوت ہوا تو اس کی عمر گویا ان دونوں سے زائد ہوئی اور اسی اعتبار سے اس کے عمل بھی ان دونوں کے عمل سے زیادہ ہوئے اس لئے وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے کہ جو اگرچہ میدان جنگ میں شہید ہوئے تھے زیادہ افضل قرار پایا، لیکن اس کے بارے میں وہی توجیہ مدنظر رہنی چاہئے جو دوسری فصل میں حضرت عبید بن خالد کی روایت کی تشریح میں بیان کی جا چکی ہے جس کی طرف یہاں بھی ترجمہ کے دوران بین القوسین اشارہ کر دیا گیا ہے کہ وہ شخص گو شہادت نہیں پا سکا تھا مگر مرابط ہونے اور جہاد کرنے کی صادق نیت رکھنے کی وجہ سے شہید ہی کے مرتبہ کا حامل قرار دیا گیا۔

یہ حدیث شیئر کریں