مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کسب اور طلب حلال کا بیان ۔ حدیث 1239

رزق انسان کی تلاش میں رہتا ہے

راوی:

وعن أبي
الدرداء قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الرزق ليطلب العبد كما يطلبه أجله . رواه أبو نعيم في الحلية . ( متفق عليه )

حضرت ابودرداء کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رزق بندے کی اس طرح تلاش کرتا ہے جس طرح انسان کو اس کی موت ڈھونڈتی ہے۔ اس روایت کو ابونعیم نے کتاب حلیہ میں نقل کیا ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ رزق اور موت دونوں کا پہنچنا ضروری ہے کہ جس طرح کہ اس بات کی کوئی حاجت نہیں ہوتی کہ کوئی اپنی موت کو ڈھونڈے اور اس کو پائے بلکہ خود موت اس کے پاس ہر صورت میں اور یقینی طور پر آتی ہے، اسی طرح رزق کا معاملہ ہے کہ اس کو تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ جو کچھ مقدر میں ہوتا ہے وہ ہر صورت میں لازمی طور پر پہنچتا ہے، خواہ اس کو ڈھونڈا جائے یا نہ ڈھونڈا جائے۔ تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ڈھونڈنے کی صورت میں رزق نہیں ملتا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حصول رزق کے لئے سعی تلاش بھی تقدیر الٰہی اور نظام قدرت کے مطابق ہے البتہ جہاں تک قلبی اعتماد وبھروسہ کا تعلق ہے او وہ صرف اللہ کی ذات پر ہونا چاہئے نہ کہ سعی وتلاش پر ۔ لہٰذا اس سلسلے میں صحیح راہ یہ ہے کہ اول انسان کو اللہ پر توکل اعتماد کرنا چاہئے اور یہ پختہ یقین رکھنا چاہئے کہ رزق کا ضامن اللہ تعالیٰ ہے ۔ نیز اگر رزق ملنے میں کوئی رکاوٹ اور تاخیر ہو جائے تو اضطراب وبے چینی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے پھر اس اعتقاد کے ساتھ اپنی ضرورت وحاجت اور ہمت وطاقت کے بقدر معتدل ومناسب طریقہ پر حصول معاش کی سعی وتلاش میں لگنا چاہئے کہ اصل رازق تو اللہ تعالیٰ ہے، لیکن یہ بھی طریقہ عبودیت ہے کہ اپنا رزق حاصل کرنے کے لئے مناسب ججدوجہد اور تلاش وسعی کی جائے؛
ملا علی قاری نے حدیث کے خاتمہ پر لکھا ہے کہ یہی نہیں کہ جس طرح انسان کو اس کی موت کا پہنچنا یقینی ہے اسی طرح اس کے رزق کا بھی اس تک پہنچنا یقینی ہے بلکہ انسان کو اس کا رزق اس کی موت سے بھی پہلے اور موت سے بھی جلدی پہنچتا ہے، کیونکہ جب کسی کی موت آتی ہے تو وہ اپنا رزق اس سے پہلے پا چکا ہوتا ہے جس کو وہ اپنے مقدر میں لے کر اس دنیا میں آیا تھا، چنانچہ اگر غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت (اللہ الذی خلقکم ثم رزقکم ثم یمیتکم ثم یحییکم) سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے نیز میرک نے منذری سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کو ابن ماجہ نے اپنی صحیح میں اور بزار نے بھی روایت کیا ہے اور طبرانی نے بھی بہتر سند کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ان الرزق لیطلب العبد اکثر ممایطلبہ اجلہ اس سے بھی مذکورہ بالا بات کی تائید ہوتی ہے۔
ملا علی قاری نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابونعیم نے اپنی کتاب حلیہ میں بطریقہ مرفوع یہ بات بھی نقل کی ہے لون ابن ادم ہرب من رزقہ کما یہرب من الموت لادرکہ رزقہ کما یدرکہ الموت اگر انسان اپنے رزق سے بھی اس طرح بھاگے جس طرح وہ اپنی موت سے بھاگتا ہے تو یقینا اس کا رزق بھی اس کو اسی طرح پا لے جس طرح کہ اس کی موت اس کو پا لیتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں