مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ رونے اور ڈرنے کا بیان ۔ حدیث 1259

ریا کار لوگوں کے بارے میں پیشگوئی

راوی:

وعن معاذ
بن جبل أن النبي صلى الله عليه وسلم قال يكون في آخر الزمان أقوام إخوان العلانية أعداء السريرة . فقيل يا رسول الله وكيف يكون ذلك . قال ذلك برغبة بعضهم إلى بعض ورهبة بعضهم من بعض .

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ آخر زمانہ میں ایسی قومیں اور جماعتیں بھی پیدا ہوں گی جو ظاہر میں تو درست ثابت ہوں گی مگر باطن میں دشمنی کریں گے۔
عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! ایسا کیونکر اور کس سبب سے ہوگا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ایسا اس وجہ سے ہوگا کہ ان میں سے بعض بعض سے غرض ولالچ رکھیں گے اور بعض بعض سے خوف زدہ ہوں گے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں مسلمانوں میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہوگی جو اپنی دنیاوی اغراض اور ذاتی مفاد کی تکمیل کے لئے منافقت اور ریاء کاری اختیار کریں گے اور صدق واخلاص سے محروم رہیں گے نہ ان کی دوستی کا بھروسہ ہوگا ، اور نہ ان کی دشمنی کا جس شخص و طبقہ سے ان کی کوئی غرض وابستہ ہوگی اس کی طرف رغبت و التفات رکھیں گے اور اس کے حق میں دوستی کا اظہار کریں گے۔ اگر کسی غرض ومفاد کا واسطہ درمیان میں نہیں ہوگا تو بیگانہ بن جائیں ، بلکہ غرض ومفاد حاصل نہ ہونے کی صورت میں دشمنی وعدات پر کمر بستہ ہو جائیں گے۔
اس سے واضح ہوا کہ شریعت کا جو یہ حکم ہے کہ مسلمان کی دوستی ودشمنی صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہونی چاہئے تو مذکورہ لوگ اس مرتبہ سے گزرے ہوئے ہوں گے، کیونکہ ان کی دوستی ودشمنی کا تعلق اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے بجائے ذاتی اغراض فاسدہ اور مذموم مقاصد سے ہوگا چنانچہ جب وہ اپنے اغراض اور اپنے مفاد کے تحت کسی فرد یا جامعت کی طرف رغبت والتفات رکھیں گے تو اس کے تئیں دوستی والفت ظاہر کریں گے اور جب کسی وجہ سے کسی فرد یا جماعت کو ناپسند کریں گے تو ان کے خلاف بغض وعداوت ظاہر کریں گے۔
پس نہ تو لوگوں کے تئیں ان کی دوستی کا اعتبار ہوگا اور نہ ان کی عداوت کا، کیونکہ ان کی دوستی اور عداوت دونوں کی بنیاد، صدق واخلاص ، اور پاکیز اغراض ومقاصد کے بجائے ، ذاتی اغراض وخواہشات ، اور نفع نقصان پر ہوگی۔

یہ حدیث شیئر کریں