مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان ۔ حدیث 1307

مختلف زبانوں اور مختلف ادوار کے بارے میں پیش گوئی

راوی:

وعن أبي عبيدة ومعاذ بن جبل عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن هذا الأمر بدأ نبوة ورحمة ثم يكون خلافة ورحمة ثم ملكا عضوضا ثم كان جبرية وعتوا وفسادا في الأرض يستحلون الحرير والفروج والخمور يرزقون على ذلك وينصرون حتى يلقوا الله رواه البيهقي في شعب الإيمان . ( حسن )

حضرت عبیدہ بن جراح اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما جو دونوں اونچے درجہ کے صحابہ میں سے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ امر (یعنی دین اسلام) نبوت و رحمت کے ساتھ ظاہر ہوا (یعنی دین اسلام سب سے پہلے جس زمانہ میں ظاہر ہوا وہ زمانہ نزول وحی اور رحمت و نورانیت کا زمانہ ہے) پھر اس دین اسلام کا جو زمانہ آئے گے وہ خلاف و رحمت کا زمانہ ہوگا، پھر اس دین اسلام کا جو زمانہ آئے گا وہ کاٹ کھانے والی بادشاہت کا زمانہ ہوگا اور پھر اس دین کا جو زمانہ آئے گا وہ ظلم وجور ، قہر وتکبر اور زمین پر فتنہ وفساد کا زمانہ ہوگا۔ اس وقت لوگ ریشمی کپڑوں کو جائز جان کر استعمال کریں گے ، عورتوں کی شرمگاہوں کو اور شراب کی تمام انواع واقسام کو حلال قرار دیں گے۔ لیکن ان چیزوں کے باوجود ان کو رزق دیا جائے گا اور کفار اور ان کے مخالفین کے مقابلہ پر ان کی مدد کی جائے گی یہاں تک وہ روز جزا اللہ تعالیٰ سے جا ملیں گے (یعنی لوگ اگرچہ اتنی سخت بد عملیوں اور اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہوں گے اور اس اعتبار سے وہ عذاب الٰہی کے مستوجب اور ہلاکت وتباہی کے مستحق ہوں گے ۔ مگر حق تعالیٰ کی اس رحمت کے سبب کہ جو امت مرحومہ کے لئے مخصوص ہے ان کو یہاں عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا اور اس میں شاید حق تعالیٰ کی کوئی حکمت پوشیدہ ہو مثلا یہ کہ ان سے مخلوق الٰہی کے نظم ونسق اور انتظام مملکت کا وہ کام لیا جانا مقصود ہوگا جس کی اہلیت وصلاحیت وہی رکھیں گے یا یہ کہ اگر وہ لوگ خود فاسق وبدکار ہوں گے لیکن ان کے ہاتھوں دین کی اصلاح ودرستی کا کوئی انجام پانا مقدر ہوگا۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

تشریح
لفظ " بدا " الف کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں " ظاہر ہوا " اور بعض نسخوں میں یہ لفظ ہمزہ کے ساتھ ہے جس کے معنی شروع ہونے کے ہیں اس صورت میں گویا ترجمہ یہ ہوگا کہ یہ امر یعنی دین اسلام کا ابتدائی زمانہ وحی سے شروع ہوا اور ذات رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے وقت تک باقی رہا۔
اس ارشاد گرامی اسلامی تاریخ کے ان ادوار اور زمانوں کے بارے میں پیش گوئی فرمائی گئی ہے جس سے مسلمانوں کا کارواں گزرا یا گزرے گا۔ پہلا زمانہ تو وہ ہوگا جس میں دین اسلام کی ابتداء اور اس کا ظہور ہوا ہے اور جو نزول وحی کے وقت سے شروع ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخر زندگی تک باقی رہا یہ زمانہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں سراسر رحمت ونورانیت اور خیر سعادت کا زمانہ تھا ذات رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی کی وجہ سے دین میں کسی رخنہ اندازی، احکام شریعت میں کسی ابہام وتشکیک ، مسلمانوں کی نظریاتی وعملی زندگی میں کسی گمراہی وضلالت اور عام حالات میں کسی فتنہ وفساد کے پیدا ہونے کا کوئی خوف تک نہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو زمانہ آیا وہ خلافت کا زمانہ تھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت و رفاقت سے فیض اٹھائے ہوئے اور ذات رسالت پناہ کے تربیت یافتہ افراد میں سے سب سے زیادہ افضل ، سب سے زیادہ باعظمت اور ایمان وعمل کے اعتبار سے سب سے زیادہ کامل انسان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائب وخلیفہ بنے، مسلمانوں کی زمام کار ان کے ہاتھوں میں آئی اور وہ دین وملت کے معاملات کے والی و نگہبان بنے ان پاک نفس حضرات نے یکے بعد دیگر مسند خلافت پر متمکن رہ کر جتنے دنوں تک مملکت وملت کا نظم ونسق چلایا وہ پورا زمانہ گویا پھر ایک مرتبہ رحمت و نورانیت کا زمانہ رہا کہ خلفاء راشدین اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طور پر مسلمانوں پر سایہ فگن اور خیر و برکت کے نزول کا باعث بنے رہے اور ان کے زمانہ میں نیکیوں اور بھلائیوں کا دور دورہ رہا مسلمان اخلاص و ایثار اور عمل کردار کی پختگی کا نمونہ بنے رہے اور ان کے طفیل میں یہ زمین عام طور پر امن وسکون اور اطمینان وعافیت کا گہوارہ رہی۔ وہ زمانہ کہ جس کو خلافت و رحمت کا زمانہ کہا گیا ہے تیس سال کے شب و روز پر مشتمل تھا ان تیس سالوں میں ساڑھے انتیس سال تو چاروں خلفاء راشدین کے مجموع زمانہ خلافت کے ہیں اور باقی چھ ماہ کا عرصہ وہ ہے جس میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر متمکن رہے۔ تفصیل اس کی یوں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد ربیع الاول 11ھ میں خلیفہ رسول مقرر ہوئے اور جمادی الثانی 13ھ میں وفات پائی ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مرض الموت میں صاحب الرائے مسلمانوں کے مشورہ سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین نامزد فرما دیا تھا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جمادی الثانی 13ھ میں خلافت کا منصب سنبھالا اور آخر ذی الحجہ 23ھ تک اس منصب پر فائز رہے، 27ذی الحجہ کو ایک نصرانی غلام ابولؤلؤ (اصل نام فیروز) نے آپ کو نماز فجر کی امامت کی حالت میں خنجر سے حملہ کر کے سخت زخمی کر دیا تھا جس کی وجہ سے جانبر نہ ہو سکے اور یکم محرم الحرام 24ھ کو فوت ہو کر مدفون ہوئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آخری دنوں میں پانچ جلیل القدر اور ممتاز صحابہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت زبیر بن عوام ، حضرت طلحہ، حضرت علی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم کو نامزد فرما دیا تھا کہ یہ حضرات آپس میں مشورہ کر کے اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنا لیں ، چنانچہ ان حضرات نے کافی غور وخوض اور باہمی مشورہ کے بعد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا امیر اور تیسرا خلیفہ منتخب کر لیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت محرم 24ھ سے شروع ہوئی اور ذی الحجہ 30ھ تک رہی جب کہ اس ماہ کی 18تاریخ کو خلافت کے باغیوں اور بلوائیوں کی ایک بڑی جماعت نے آپ کو مکان میں محصور کر کے بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے ایک ہفتہ بعد 25ذی الحجہ 35ھ کو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر مدینہ منورہ میں عام بیعت ہوئی اور اس طرح وہ چوتھے خلیفہ مقرر ہوئے اور رمضان 40ھ کو ان کی خلافت کا دور ختم ہوا جب کہ عبدالرحمن بن ملجم کے زخمی کر دینے کی وجہ سے سے ان کی وفات ہوئی ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد لوگوں نے ان کے بڑے صاحبزادے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کی خلافت قائم ہوئی ، لیکن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے آویزش جو سلسلہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں شروع ہوا تھا وہ ان کی وفات کے بعد اور زیادہ بڑھ گیا اور جب سیادت وامارت کے مسئلہ پر مسلمانوں میں افتراق وانتشار بڑھنے لگا اور مخالف فریقوں کے درمیان کشت وخون کا خطرہ زیادہ شنگین ہو گیا تو حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں خلاف سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا چنانچہ انہوں نے ربیع الاول 41ھ تک خلافت کی۔ 41ھ تک کا تیس سالہ دور وہ زمانہ ہے جس کو اس حدیث میں خلافت و رحمت کا زمانہ فرمایا گیا ہے اور اس زمانہ میں ان خلفاء راشدین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائب وخلیفہ ہونے کی حیثیت سے اخلاص ودیانت ، اور عدل وانصاف کے ساتھ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو مشعل راہ بنا کر دین اسلام کی خدمات انجام دیں، مسلمانوں کی مذہبی وسیاسی قیادت وسیادت کی ذمہ داریوں کو حسن وخوبی کے ساتھ نبھایا اور اسلام کی عظمت وشوکت کا جھنڈا بلند کیا۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس خلافت کی اس حدیث میں فضیلت بیان کی گئی ہے اور جو واقعتا ذات رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیاب تھی اس میں امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی حصہ نہیں ہے کہ ان کا دور حکمرانی اس زمانہ سے الگ ہے ۔ جس کو خلافت ورحمت کا زمانہ فرمایا گیا ہے۔
" عض" کے معنی کاٹنے کے ہیں اور " عضوض" (عین کے زبر کے ساتھ) اسی لفظ سے نکلا ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے اور ایک روایت میں ملوکا عضوضا (عین کے پیش کے ساتھ) منقول ہے جو عض (عین کے زیر کے ساتھ) کی جمع ہے اور جس کے معنی خبیث ، شریر، اور بدخلق کے ہیں مطلب یہ ہے کہ خلافت و رحمت کے زمانہ کے بعد جو دور آئے گا وہ ملوکیت بادشاہت کا دور ہوگا اور ایسے ایسے لوگ ملک کے بادشاہ حکمران اور مسلمانوں کے سردار وحاکم بن بیٹھیں گے جن کے دلوں میں نہ اللہ کا خوف اور مواخذہ آخرت کا ڈر ہوگا اور نہ مخلوق اللہ کے تئیں ہمدردی ومروت اور عدل وانصاف کا احساس ہوگا اس لئے وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کے لوگوں پر ظلم وجبر کریں گے ان کو ناحق سزاؤں اور عقوبتوں میں مبتلا کریں گے اور ان کو طرح طرح سے ستائیں گے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ بات غالب و اکثریت کے اعتبار سے کہی گئی ہے یعنی اکثر بادشاہ حکمران ایسے ہوں گے، اور چونکہ شاذ و نادر پر حکم نہیں لگایا جاتا کہ النادر کالمعدوم اس لئے یہ اشکال پیدا نہیں ہو سکتا کہ حدیث میں خلافت راشدہ کے بعد کے حکمرانوں اور بادشاہوں کے زمانہ کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے کیا اس کا اطلاق ان حکمرانوں کے رانوں پر بھی ہوتا ہے۔ جو عدل وانصاف، مذہب وملت کی خدمت گزاری اور اللہ ترسی کے اوصاف سے پوری طرح آراستہ تھے ؟ مثال کے طور پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور حکمرانی ہے ، انہوں نے جس عدل وانصا کے ساتھ حکمرانی کی اور ان کا دور اسلام اور مسلمانوں کے حق میں جس طرح خیر وبھلائی کا باعث بنا اس کی بنیاد پر عمر ثانی کہا گیا ہے حاصل یہ کہ خلاف راشدہ کے بعد جن لوگوں نے مسلمانوں پر حکمرانی کی، اور جو لوگ بادشاہ بنے ان میں سے اکثر ایسے تھے جن کا دور حکمرانی مذہب وملت کے حق میں مفید ثابت ہوا اور اپنے عوام کے لئے خیر وبرکت اور راحت واطمینان کا باعث بنے وہ استثنائی حکم رکھتے ہیں۔
" ظلم وجور ، قہر وتکبر اور زمین پر فتنہ وفساد کا زمانہ ہوگا " کا مطلب یہ ہے کہ آخر میں جو زمانہ آئے گا وہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں اور زیادہ سخت ہوگا، نااہل لوگ تخت حکومت پر بیٹھیں گے ، ظلم اور زیادتی اور انتشار وبد امنی کا دور دورہ ہوگا، عالم لوگوں کی جان و مال اور عزت آبرو غیر محفوظ ہوگی ہر طرف لوٹ مار، قتل وغارتگری کا بازار گرم ہوگا، اور انسانیت کو تباہ کرنے والی ہر طرح کی برائیاں روئے زمین پر پھیل جائیں گی۔ چنانچہ جیسا کہ ہم اپنے زمانہ میں دیکھ رہے ہیں یہ پیش گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہو رہی ہے، کیونکہ حکومت واقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے جو آئیں جہانبانی سے ناواقف ہیں، جنہوں نے ظلم وجور کو اپنا شعار بنا رکھا ہے اور مسلم ممالک جہاں مذہب وملت کے اصولوں کی فرمانبرداری ہونی چاہیے وہاں طاغوتی طاقتیں بر سرحکومت ہیں ظالم وجابر لوگوں نے زور زبردستی اور مکر و فریب کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ کر لیا ہے وہ نہ قیادت وسیادت کے اصول وشرائط کو پورا کرتے ہیں، نہ اپنے عوام کی دینی ودنیاوی بھلائی وبہتری سے انہیں کوئی تعلق ہے وہ اپنے اقتدار کو باقی رکھنے کے لئے فتنہ وفساد کے بیج بوتے ہیں تباہ کن سازشیں کرتے ہیں عوام پر نت نئے ظلم ڈھاتے ہیں جو بندگان خاص انہیں راہ راست دکھانا چاہتے ہیں ان کو طرح طرح کی صعوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں، کلیدی عہدوں اور مناسب پر اہل و لائق افراد کی بجائے موقع پرست، خود غرض اور نااہل لوگوں کو فائز کرتے ہیں، علماء وصلحاء اور اکابرین دین، جو ہر طرح کی عزت احترام کے مستحق ہوتے ہیں نہ صرف یہ کہ ان کی طرف کوئی توجہ والتفات نہیں کی جاتی بلکہ مختلف ذرائع اور اقدامات کے ذریعہ ان کی ہتک کی جاتی ہے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی پاداش میں ان کو قیدوبند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا جاتا ہے۔
اور یہ کہ تقریبا تمام ہی مسلم حکمرانوں نے دین کے دشمنوں کے خلاف توجہاد کے فریضہ کو ترک کر دیا، البتہ اپنی حکمرانی کی خاطر اور ملک گیری کی ہوس میں خود مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہو گئے اور اپنی تلواروں کو ان کے خون سے رنگین کیا۔ اور اسی وجہ سے بعض علماء نے یہاں تک کہہ دیا کہ جو شخص ان حکمرانوں اور بادشاہوں کو عادل کہے گا وہ کافر ہو جائے گا۔
غرضیکہ ان حکمرانوں اور بادشاہ کی وجہ سے روئے زمین پر فتنہ وفساد روز افزوں ہوتا گیا خود غرضی، موقع پرستی ، بدانتظامی، اور عام بدامنی وانتشار کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا، یہاں تک کہ تاریخ ایسے حکمرانوں کے سیاہ کارناموں سے شرمسار ہے جو مسلمان ہوتے ہوئے ان شہرووں کو تاراج کرنے اور وہاں کے لوگوں کا قتل عام کا باعث بنے ، جہاں بڑے بڑے اولیاء ، صلحاء اور مشایخ تھے ، جہاں کمزور اور ضعیف لوگ بچے اور عورتیں تھیں ، اور جن کو قتل کرانے کے لئے کوئی وجہ جواز نہیں تھی، مزید ستم یہ کہ اس شہر کے لوگ ملت حنیفہ سے تعلق رکھتے تھے، اور اہل سنت والجماعت میں شامل تھے اور ان کا قتل عام کرنے والے مدعی سلطنت اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ ہم دین وشریعت کے حامی و مددگار ہیں، اور اہل علم وبزرگان دین کی تعظیم کرتے ہیں۔
علماء نے تو یہاں تک تصریح کی ہے کہ اگر مسلمان دشمنان دین کے کسی ایسے قلعہ کو فتح کریں جس میں ہزاروں اہل حرب اور دشمنان دین پائے جائیں لیکن ان ہزاروں میں کوئی ایک مجہول الحال ذمی بھی موجود ہو تو محض اس ذمی کی وجہ سے مفتوح قلعہ میں قتل عام کرنا ہرگز درست نہیں ہوگا۔ مگر وہ حکمران اور بادشاہ حشر کے دن آخر کیا جواب دیں گے جنہوں نے محض اپنے اقتدار اور اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے مسلمانوں تک کا قتل عام کرایا ہے اور ان کے شہروں وآبادیوں کو چشم و زون میں تہس نہس کر کے رکھ دیا۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے نالائق ونااہل مسلم حکمرانوں ہی کی وجہ سے ایسے ایسے فتنہ وفساد رونما ہوئے اسلامی سلطنتوں میں اس قدر تباہیاں آئیں اور اتنا زیادہ کشت و خون ہوا کہ روئے زمین پناہ مانگنے لگی، یہاں تک کہ حرمین شریفین بھی ان فتنہ وفساد سے محفوظ نہ رہ سکے اور ان مقدس شہروں میں اتنے تباہ کن اور بھیانک واقعات رونما ہوئے کہ قلم کو مجال بیان نہیں اور ان کی تفصیل کو ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور اپنے دین کا بہترین کا رساز اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کی امت کا حامی ومددگار ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آنے والا ہر سال، بلکہ ہر دن اور بلکہ ہر لمحہ پہلے کی بہ نسبت بد سے بدتر ہی گزر رہا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں