مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ فتنوں کا بیان ۔ حدیث 1329

خلافت راشدہ کے بعد پیش آنے والے روح فرسا واقعات کے بارے میں پیشگوئی

راوی:

وعن أبي ذر قال كنت رديفا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما علىحمار فلما جاوزنا بيوت المدينة قال كيف بك يا أبا ذر إذا كان بالمدينة جوع تقوم عن فراشك ولا تبلغ مسجدك حتى يجهدك الجوع ؟ قال قلت الله ورسوله أعلم . قال تعفف يا أبا ذر . قال كيف بك يا أبا ذر إذا كان بالمدينة موت يبلغ البيت العبد حتى إنه يباع القبر بالعبد ؟ . قال قلت الله ورسوله أعلم . قال تصبر يا أبا ذر . قال كيف بك يا أبا ذر إذا كان بالمدينة قتل تغمر الدماء أحجار الزيت ؟ قال قلت الله ورسوله أعلم . قال تأتي من أنت منه . قال قلت وألبس السلاح ؟ قال شاركت القوم إذا . قلت فكيف أصنع يا رسول الله ؟ قال إن خشيت أن يبهرك شعاع السيف فألق ناحية ثوبك على وجهك ليبوء باثمك وإثمه . رواه أبو داود .

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن کسی سفر کے موقع پر میں گدھے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے سوار تھا (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا، گویا یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اور رفقاء کے ساتھ کس قدر تواضع ومحبت اور حسن وسلوک کا رویہ اختیار فرماتے تھے، نیز اس سے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس خصوصیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قدر قریب کا مقام حاصل تھا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کو نہایت توجہ وہوشیاری کے ساتھ سنتے اور اچھی طرح یاد رکھتے تھے، بہرحال، حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ) جب ہم مدینہ کے گھروں سے یعنی آبادی سے باہر نکل گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب مدینہ میں بھوک کا دور دورہ ہوگا (یعنی خاص طور پر تمہیں اس قدر اسباب معیشت حاصل نہیں ہو سکیں گے کہ تم اپنا پیٹ بھی بھر سکو، یا یہ کہ اس وقت مدینہ میں قحط پھیل جائے گا اور تم لوگوں کو کھانے کے لئے کچھ نہیں ملے گا یہاں تک کہ تم اپنے بستر سے اٹھ کر اپنی مسجد تک پہنچنے میں بھی مشکل محسوس کرو گے اور بھوک کی شدت تمہیں سخت پریشانی اور اذیت میں مبتلا کر دے گی (یعنی بھوک کی وجہ سے تم پر اس قدر ضعف غالب ہو جائے گا کہ تم اپنے گھر سے نکل کر نماز پڑھنے کے لئے مسجد تک جانے میں بھی سخت مشکل اور دقت محسوس کرو گے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں (یعنی میں نہیں بتا سکتا کہ اس وقت کیا کروں گا، ہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہدایت فرمائیے کہ اس وقت مجھے کیا کرنا چاہئے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ابوذر! پارسائی اختیار کرنا، یعنی اس بھوک پر صبر کرنا ضبط وتحمل کے ساتھ اس سخت حالت کا مقابلہ کرنا اپنے آپ کو حرام ومشتبہ مال سے محفوظ رکھنا، طمع ولالچ لرکھنے اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے اور مخلوق کے سامنے ذلت ورسوائی اختیار کرنے سے اجتناب کرنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ابوذر! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب قحط یا کسی وبا کے پھیل جانے کی وجہ سے مدینہ میں موت کی گرم بازاری ہوگی اور مکان (یعنی قبر) کی قیمت غلام تک پہنچ جائے گی (یعنی کثرت اموات سے یہ حال ہوگا کہ لوگوں کو اپنے مردے دفن کرنے کے لئے قبر کی جگہ ملنی مشکل ہو جائے گی اور ایک قبر کی جگہ، غلام کی قیمت کے برابر پہنچ جائے گی۔ چنانچہ آگلے جملے کے ذریعے اسی بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں فرمایا کہ یہاں تک کہ قبر کی جگہ ، غلام کی قیمت کے برابر فروخت ہوگی ) حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں (آپ ہی ہدایت فرمائیے کہ اس وقت مجھے کیا کرنا چاہئے؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ابوذر ! صبر کا دامن ہرگز نہ چھوڑنا، اور پھر فرمایا ابوذر! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب مدینہ میں قتل عام ہوگا اور اس کا خون احجار الزیت کو ڈھان لے گا؟ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی فرمائیے کہ مجھے اس وقت کیا کرنا چاہئے؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم اس کے پاس چلے جانا، جس سے تم تعلق رکھتے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ ، تو کیا میں اس وقت ہتھیار باندھ لوں اور فتنہ پھیلانے والی جماعت کے خلاف برسر پیکار ہو جاؤں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اس طرح تو تم بھی جماعت کے شریک کار ہو جاؤ گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! پھر مجھے اس وقت کیا کرنا چاہئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اگر تمہیں خوف ہو کہ تلوار کی چمک تم پر غالب آ جائے گی (یعنی تم یہ دیکھو کہ کوئی شخص تمہیں مار ڈالنے کے لئے اپنی تلوار سے تم پر وار کرنا چاہتا ہے ) تو اس وقت تم اپنے کپڑے کا کونہ اپنے منہ میں ڈال لینا۔ تاکہ وہ تمہارا گناہ (یعنی تمہارے قتل کا گناہ) اور اپنا گناہ لے کر واپس ہو۔ (ابوداؤد)

تشریح
" تصبر" بات تفعل سے امر کا صیغہ ہے اور ایک نسخہ میں یہ لفظ مضارع کا صیغہ منقول ہے جو امر کے معنی ہیں اس جملے کا حاصل یہ ہے کہ تم اس آفت وبلا پر صبر کرنا جزع وفزع سے اجتناب کرنا، تقدیر الٰہی پر راضی و شاکر رہنا ۔ اور مدینہ سے بھاگنے کی کوشش نہ کرنا۔
" احجار الزیت" نواح مدینہ میں بجانب غرب ایک جگہ کا نام تھا، وہاں کی زمین نہایت پتھریلی تھی اور وہ پتھر بھی اس قدر سیاہ اور چمکدار تھے کہ جیسے کسی نے ان پر زیتون کا تیل مل دیا ہو، اسی مناسبت سے اس جگہ کو احجار الزیت کہا جاتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ارشاد گرامی " ابوذر! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب مدینہ میں قتل عام ہوگا الخ" کے ذریعے بطور پیشگوئی اس خونچکاں واقعہ کی طرف اشارہ کیا جو مسلمانوں کے قتل عام کی صورت میں مدینہ منورہ پیش آیا اور واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ہوا، مستند کتابوں میں اس واقعہ کی جو تفصیل مذکور ہے وہ اتنی لرزہ خیز، اتنی دردناک اور اتنی بھیانک ہے کہ نہ تو اس کو بیان کرنے کا زبان وقلم کو یارا ہے اور نہ کوئی آسانی کے ساتھ اس کو پڑھنے اور سننے کی تاب لا سکتا ہے۔ تاہم اجمالی طور پر اتنا بتا دینا ضروری ہے کہ جب بدبخت یزید ابن معاویہ کی فوج نے میدان کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا تو پورے عالم اسلام میں زبردست تہلکہ مچ گیا اور یزید کے خلاف عام مسلمانوں میں ناہیت نفرت کے جذبات پیدا ہو گئے ادھر اس کی بدکاریوں ، بے اعتدالیوں اور بدمست زندگی کے واقعات نے اس کی طرف لوگوں کو پہلے ہی بدظن کر رکھا تھا چنانچہ اہل مدینہ نے متفقہ طور پر اس کی خلافت وحکومت سے بیزاری کا اظہار اور اس کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا، جب یزید کو یہ معلوم ہوا تو اس نے مسلم بن عقبہ کی کمان میں ایک بہت بڑا لشکر اہل مدینہ نے بڑی بہادری اور بے جگری کے ساتھ یزید کی فوج کا مقابلہ کیا لیکن اول تو تربیت یافتہ فوج اور دیگر وسائل وذرائع کی کمی کی وجہ سے اور دوسرے مسلم بن عقبہ جیسے ہوشیار وتجربہ کار کمانڈر کا مقابلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے شکست کھا گئے پھر تو مسلم بن عقبہ اور اس کی فوج نے شہر میں گھس کر قتل عام اور خونریزی کا بازر گرم کر دیا اور قتل عام لوٹ مار کا یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہا، ہزاروں مسلمان نہایت سفاکی اور بے دردی کے ساتھ قتل کر دئیے گئے جن میں صحابہ کرام اور تابعین کی بھی بہت بڑی تعداد تھی، شہر مقدس اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کو پامال کیا گیا اور دیگر ناقابل بیان تباہیوں اور بربادیوں کا بازار گرم کیا گیا۔ صرف مدینہ ہی کی پامالی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بعد یزید کی وہ فوج مکہ کی طرف روانہ ہوئی جہاں کے لوگوں نے بہت پہلے سے حضرت عبداللہ بن زبیر کو خلیفہ تسلیم کر رکھا تھا، یزیدی لشکر نے مکہ مکرمہ میں بھی بے پناہ تباہی مچائی اور خانہ کعبہ تک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اسی سال یزید کی موت ہوئی۔
" تم اس کے پاس چلے جانا جس سے تعلق رکھتے ہو" کے معنی یہ ہیں کہ اس وقت جو لوگ تمہارے دین ومسلک کے ہوں اور تمہارے خیالات واعمال کے موافق ہوں ان کے پاس چلے جانا۔ اور قاضی رحمہ اللہ نے اس جملے کی یہ مراد بیان کی ہے کہ تم اپنے اہل واقا رب کے پاس چلے جانا اور یہ کہ اپنے گھر میں بیٹھے رہنا۔ اور طیبی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تم اپنے اس امام و امیر کی طرف رجوع کرنا جس کی تم اتباع فرمانبرداری کرتے ہو۔ یہ مطلب زیادہ صحیح اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس جملے " تو کیا میں ہتھیار باندھ لوں" کے زیادہ مناسب ہے۔
" اس طرح تم بھی جماعت کے شریک کار ہو جاؤ گے" کا مطلب ، جو طیبی کے منقولات کی روشنی میں واضح ہوتا ہے یہ ہے کہ ایسے موقع پر جب کہ فتنہ وفساد پھوٹ پڑا ہو اور قتل وخونریزی کا بازار گرم ہو مسلح اور ہتھیار بند ہونا گویا اس خونریزی میں شرکت کرنا اور فتنہ پردازی کے گناہ گاروں کی صف میں شامل ہونا ہے لہٰذا تم نہ ہتھیار باندھنا اور نہ کسی کے خلاف جنگ میں شریک ہونا بلکہ اپنے امام ومقتدا اور صلح جو امن پسند لوگوں کے ساتھ رہنا یہاں تک کہ تم صلح جوئی اور امن پسندی کی راہ میں فلاح یاب ۔ لیکن اس وضاحت پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ ایک طرف تو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنے امام وامیر کے ساتھ رہیں جو یقینا اس وقت قتل وقتال اور خونریزی میں ایک فریق کی حیثیت رکھے گا دوسری طرف یہ حکم دیا گیا کہ وہ قتل وقتال سے دور رہیں ۔ تو یہ دونوں باتیں ایک ساتھ کس طرح ممکن ہوں گی؟ اس کا جواب ابن ملک نے اس طرح دینے کی کوشش کی ہے کہ شریعت کا حکم تو یہی ہے کہ اگر کوئی شخص ناحق اور از راہ ظلم، خونریزی کا ارتکاب کرنا چاہے تو اس کا دفاع کرنا اور اس کی فساد انگیزی کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی سعی کرنا واجب ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ اس وقت ہتھیار بند ہونا، گویا فتنہ پردازوں کی جماعت کا شریک کار ہونا ہے، تو اس کا اصل مقصد خونریزی کی بڑائی کو واضح کرنا اور اس کے تباہ کن اثرات کے خلاف آگاہ و متنبہ کرنا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اگر خونریزی وغارت گری کے لئے آنے والا دشمن اگر مسلمان ہو تو طاقت کے ذریعے اس کا دفاع کرنا اور اس سے لڑنا جائز ہے بشرطیکہ اس سے مقابلہ آرائی کی صورت میں فتنہ وفساد کے زیادہ بڑھ جانے کا خوف نہ ہو اور اگر وہ دشمن، کوئی غیر مسلم ہو تو پھر اس کا ہر ممکن ذریعے سے مقابلہ کرنا اور اس کے ساتھ ہر صورت میں لڑنا واجب ہے۔
" اپنے کپڑے کا کونہ اپنے منہ میں ڈال لینا " کا مطلب یہ ہے کہ اگر قتل وقتال کرنے والے لوگ تم پر حملہ بھی کریں تو تم ان سے نہ لڑو۔ بلکہ ان کے حملے کے وقت کسی بھی ذریعے سے اپنے آپ کو غافل اور غیر متعلق بنا لو تاکہ تمہیں اس حملے سے خوف محسوس نہ ہو۔ اس سے گویا اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ تم ان لوگوں سے اس حالت میں بھی نہ لڑنا اور ان کے خلاف تلوار نہ آتھانا جب کہ وہ تم سے لڑنا اور تمہیں قتل کرنا چاہیں بلکہ تمہارے لئے فلاح کا راستہ یہی ہوگا کہ اس وقت تم مظلوم بن جانا اور اور اپنے آپ کو ان کے ہاتھوں شہید ہو جانے پر تیار کر لینا کیونکہ وہ لوگ بہرحال مسلمان ہوں گے اور مسلمان کے خلاف تلوار اٹھانا جائز نہیں ہے۔ اگر وہ تمہیں قتل کریں گے تو وہ ان کا عمل ہوگا اور اللہ خود ان سے نپٹ لے گا۔ بعض شارحین نے لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کا اصل مقصد مسلمانوں کی باہمی خونریزی کی برائی اور اس سے بچنے کی فضیلت کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کرنا ہے کہ چاہے اپنی جان سے ہاتھ بھی دھونا پڑے مگر کسی مسلمان کے خلاف ہتھیار اٹھانا گوارہ نہ کرنا چاہئے ورنہ جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے ، یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ فتنہ کا سر کچلنے کے لئے اور ناحق خونریزی پر آمادہ شخص کا دفاع کرنے کے لئے لڑنا جائز ہے اگرچہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔
یہ بات واضح کر دینی ضروری ہے کہ واقعہ حرہ٦٣ھ میں پیش آیا جب کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے آخری زمانے میں ٣٢ھ میں ہو چکی تھی ، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ تو منکشف ہو گیا تھا کہ مدینے میں ایسا المناک واقعہ پیش آئے گا لیکن یہ منکشف نہیں ہوا تھا کہ یہ واقعہ کب پیش آئے گا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کے متعلق باخبر کیا اور گویا یہ وصیت فرمائی کہ اگر وہ خونریزی تمہارے سامنے پیش آئے اور تمہاری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو صبر و ثبات کی راہ اختیار کرنا اور اس خونریزی میں ہرگز شامل نہ ہونا جہاں تک بھوک کی حالت اور کثرت اموات کے واقعہ کا تعلق ہے تو ہو سکتا ہے کہ مدینہ والوں کو ان دونوں باتوں کا سامنا کرنا پڑا ہو اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی ہی میں یہ دونوں پیشگوئیاں بھی پوری ہو گئی ہوں جیسا کہ عام الرماد میں پیش آنے والی صورت حال سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ قتل عام اور خونریزی کے فتنہ کی طرح یہ دونوں باتیں بھی حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد ظاہر ہوئی ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں