مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ جنگ کرنے کا بیان ۔ حدیث 1369

حبشیوں کے بارے میں ایک ہدایت

راوی:

وعن رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال دعوا الحبشة ما ودعوكم واتركوا الترك ما تركوكم . رواه أبو داود والنسائي

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم حبشیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو جب تک کہ وہ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑے رکھیں اور ترکوں کو بھی ان کے حال پر چھوڑ دو جب تک کہ وہ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑے رکھیں ۔، (ابو داؤد ، نسائی)

تشریح
یہاں ایک یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے تو یہ حکم دیا ہے کہ آیت (وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَا فَّةً ) 9۔ التوبہ : 36) (یعنی مشکرین سے قتال کرو وہ جہاں کہیں بھی ہوں) پس جب اس حکم میں عموم ہے تو حبشیوں اور ترکوں کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ تم ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو ، یعنی ان پر حملہ نہ کرو اور ان کے ملکوں اور شہروں پر چڑھائی سے گریز کرو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حبشہ اور ترک کا معاملہ اس آیت کے عمومی حکم سے خارج اور مخصوص استثنائی نوعیت رکھتا تھا کیونکہ جغرافیائی پوزیشن کے اعتبار سے یہ دونوں ملک اس زمانے کی اسلامی طاقت کے مرکز سے بہت دور دراز فاصلے پر واقع تھے اور اسلامی چھاؤ نیوں اور ان ملکوں کے درمیان دشت وبیاباں کا ایک ایسا دشوار گزار سلسلہ حائل تھا جس کو عام حالات میں عبور کرنا ہر ایک کے لئے ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بنا پر مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان دونوں ملکوں کے خلاف کوئی اقدامی کاروائی نہ کی جائے اور ان لوگوں سے اس وقت تک کوئی تعرض نہ کیا جائے جب تک کہ وہ خود تم سے چھیڑ نہ نکا لیں، پس اگر وہ تمہارے خلاف جارحیت کا ارتکاب کریں اور اپنی فوج وطاقت جمع کر کے مسلمانوں کے شہروں اور اسلامی مراکز پر چڑھ آئیں تو اس صورت میں ان کے خلاف نبرد آزما ہو جانا اور ان کے ساتھ جنگ وقتال کرنا فرض ہوگا۔ یا ایک بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اسلام کے ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے جب کہ اسلام اور مسلمانوں کے پاس اتنی طاقت اور اس قدر ذرائع نہیں تھے کہ وہ اتنے دور دراز علاقوں تک اسلام کی پیش رفت کو بڑھاتے ، چنانچہ بعد میں جب مذکورہ آیت نازل ہوئی اور اسلام کو طاقت میسر ہوگئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حکم منسوخ قرار پا گیا۔

یہ حدیث شیئر کریں