مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کھانوں کے ابواب ۔ حدیث 197

حالت اضطرار کا مسئلہ

راوی:

وعن أبي واقد الليثي أن رجلا قال : يا رسول الله إنا نكون بأرض فتصيبنا بها المخصمة فمتى يحل لنا الميتة ؟ قال : " ما لم تصطبحوا وتغتبقوا أو تحتفئوا بها بقلا فشأنكم بها " . معناه : إذا لم تجدوا صبوحا أو غبوقا ولم تجدوا بقلة تأكلونها حلت لكم الميتة . رواه الدارمي

اور حضرت ابوواقد لیثی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ایک شخص نے عرض کیا " یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ') ہم (کبھی ایسی زمین میں (یعنی ایسی جگہ پہنچ جاتے ) ہیں کہ (یہاں ہمیں کھانا کو کچھ نہیں ملتا جس کی وجہ سے ) ہم وہاں مخمصہ (بھوک ) کی حالت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس صورت میں مردار کھانا ہمارے لئے کب حلال ہو جاتا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کہ تم صبح تک یا شام تک (کھانے پینے کی کوئی چیز ) نہ پاؤ یا اس زمین (یعنی اس جگہ کہ جہاں تم ہو ) تو تمہاری حالت مردار سے متعلق ہو گی یعنی ایسی صورت پیش آنے پر مردار کھانا تمہارے لئے حلال ہو گا (اب اس کے بعد راوی حدیث کا ما حصل بیان کرتے ہیں کہ ) اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم دن بھر میں اور رات بھر میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ پاؤ اسی طرح تمہیں ترکاری کی قسم سے بھی کوئی چیز (یہاں تک کہ گھاس اور درخت کے پتے بھی ) میسر نہ ہوں جس کو تم کھا سکو (اور اپنی جان بچا سکو ) تو اس صورت میں تمہارے لئے مردار حلال ہو گا ۔" (دارمی )

تشریح
دونوں حدیثوں میں بظاہر تعارض محسوس ہوتا ہے کیوں کہ پہلی حدیث میں تو صبح و شام کو دودھ ملنے کی صورت کو بھی بھوک اور مخمصہ یعنی اضطرار کی حالت پر محمول کیا اور مردار کھانے کو مباح قرار دیا جب کہ اس دوسری حدیث میں حالت اضطرار کے پائے جانے کو اس امر کے ساتھ مشروط کیا کہ صبح و شام تک کھانے پینے کی کوئی بھی چیز میسر نہ ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اس دائرے کو اتنا تنگ کیا کہ اگر ترکاری و سبزی اور اس کی مانند چیزیں جیسے گھاس اور درخت کے پتے وغیرہ ہی مہیا ہو جائیں اور ان کو پیٹ میں ڈالا جا سکے تو اس صورت میں حالت اضطرار متحقق نہیں ہو گی اور مردار کھانا مباح نہیں ہو گا ۔ ان احادیث کے باہمی تعارض و اختلاف ہی کی بنا پر علماء کے مسلک و اقوال میں بھی اختلاف پیدا ہوا ہے ، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک تو یہ ہے کہ سدرمق یعنی جان بچانے کی خاطر از قسم مردار کوئی چیز کھانا اس صورت میں حلال ہو گا جب کہ بھوک کی وجہ سے جان کی ہلاکت کا خوف پیدا ہو جائے، اور اسی قدر کھانا حلال ہو گا جس سے بس جان بچ جائے ۔ حضرت امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے، یہ مسلک و قول بظاہر " سختی و تنگی " پر محمول ہے، لیکن حقیقت میں احتیاط و تقویٰ اسی میں ہے ۔
اس کے برخلاف حضرت امام مالک، حضرت امام احمد ، اور ایک قول کے مطابق حضرت امام شافعی، کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اتنی مقدار میں کھانا نہ پائے جس سے وہ سیر ہو جائے اور اس کی طبعی خواہش حاجت مند و متقاضی ہو تو اس کے لئے مردار کھانا حلال ہو گا، تاآنکہ وہ اپنی حاجت طبع پوری کرے ، یعنی وہ سیر ہو جائے، اور اس مسلک میں زیادہ نرمی و آسانی ہے ۔ حاصل یہ کہ حالت ، اضطرار میں از قسم مردار کوئی چیز کھانے کے سلسلے میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک تو سدرمق کا اعتبار ہے، کہ مضطر بس اتنا مردار کھا سکتا ہے جس سے جان بچی رہے جب کہ دوسرے آئمہ کے نزدیک حصول قوت یعنی شکم سیر ہو کر کھانے کا اعتبار ہے ان ائمہ کی دلیل پہلی حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں مردار کھانے کو حلال قرار دیا ، جب کہ سائل کو ایک پیالہ دودھ دن میں، اور ایک پیالہ دودھ رات میں میسر ہوتا تھا اور دن و رات میں ملنے والا ایک ایک پیالہ دودھ بلا شک و شبہ سدرمق یعنی جان بچانے کی حد تک کافی ہو سکتا ہے ، اگرچہ اس کے ذریعہ شکم سیری نہ ہو سکتی ہو، لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اضطرار کی حد کی وجہ سے مردار کھانا مباح ہو جاتا ہے اصل میں شکم سیری کا حاصل نہ ہونا ہے اور بقدر حصول قوت مردار کھانا حلال ہے ۔
ان ائمہ کے برخلاف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ) کے نزدیک جہاں تک پہلی حدیث کا تعلق ہے کہ جس سے دوسرے آئمہ استدلال کرتے ہیں اس کے بارے میں ان کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس حدیث میں صبح و شام ایک ایک پیالہ دودھ پوری قوم کو ملتا تھا، نہ کہ ایک ایک شخص ایک ایک پیالہ دودھ پاتا تھا، چنانچہ لفظ طعامکم میں جمع کا صیغہ اس بات کی واضح دلیل ہے ۔
اسی طرح حضرت فجیع عامری کا سوال کرنا محض اپنی ذات کی طرف سے نہیں تھا ، بلکہ درحقیقت انہوں نے اپنی پوری قوم کی طرف سے سوال کیا تھا اسی لئے انہوں نے یہ الفاظ کہے ما یحل لنا (ہمارے لئے مردار میں سے کیا حلال ہے ) انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ میرے لئے مردار میں سے کیا حلال ہے ؟ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک کثیر جماعت کے لئے محض ایک پیالہ دودھ سدرمق یعنی جان بچانے کے لئے بھی ہرگز کافی نہیں ہو سکتا، اور نہ وہ کسی ایک کی بھی بھوک کو ذرا برابر بھی ختم کرنے میں مدد گار بن سکتا ہے ، ہاں اگر ہر ایک کو ایک ایک پیالہ دودھ ملے تو وہ بے شک جان بچانے کے بقدر غذا بن سکتا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں