مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ پینے کی چیزوں کا بیان ۔ حدیث 209

دائیں طرف سے دینا شروع کرو

راوی:

وعن سهل بن سعد قال : أتي النبي صلى الله عليه وسلم بقدح فشرب منه وعن يمينه غلام أصغر القوم والأشياخ عن يساره فقال : " يا غلام أتأذن أن أعطيه الأشياخ ؟ " فقال : ما كنت لأوثر بفضل منك أحدا يا رسول الله فأعطاه إياه
وحديث أبي قتادة سنذكر في " باب المعجزات " إن شاء الله تعالى

اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (دودھ یا پانی ) کا پیالہ لایا گیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف ایک نوعمر تھا جو (حاضرین مجلس میں ) سب سے چھوٹا تھا، (یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) اور جو بڑے بوڑھے لوگ تھے وہ بائیں طرف تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اے لڑکے کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں اس (باقی ماندہ دودھ یا پانی ) کو ان بوڑھوں کو دے دوں؟ " اس نوعمر نے کہا کہ " (نہیں ) یا رسول اللہ ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے ہوئے (دودھ یا پانی ) کو دینے کے سلسلے میں اپنے اوپر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔" چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے ہوئے ( دودھ یا پانی ) کو اسی نوعمر کو دے دیا ۔" (بخاری ومسلم )
اور حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت (جس کو صاحب مصابیح نے یہاں نقل کیا تھا ) ہم انشاء اللہ باب المعجزات میں نقل کریں گے ۔

تشریح
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر مجلس میں ایک سے زائد لوگ موجود ہوں اور ان کو کوئی چیز دینی ہو تو دائیں طرف کا شخص اس بات کا اولی اور زیادہ حق دار ہے کہ دینے کی ابتداء اسی سے کی جائے ہاں اگر کسی مصلحت کا یہ تقاضا ہو کہ پہلے اس شخص کو دیا جائے جو بائیں طرف ہے تو دائیں طرف والے سے اس کی اجازت لینی چاہئے، اگر وہ اجازت دے دے تب بائیں طرف والے کو دیا جائے ۔ رہی یہ بات کہ اس موقعے پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اجازت مانگی لیکن پچھلی حدیث میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی سے اجازت نہیں مانگی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف جو بڑی عمر والے لوگ بیٹھے تھے ان کا تعلق قریش سے تھا اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابتدار تھے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ اگر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اجازت لے کر ان لوگوں کو دے جائے تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو کوئی ناگواری بھی نہ ہو گی اور ان بڑی عمر والے لوگوں کی تالیف قلوب بھی ہو جائے گی جب کہ اس موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پختہ تعلق تھا، اور محبت و اخلاص راسخ تھا ان کی تالیف قلب کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، دوسری طرف اس دیہاتی کے بارے میں بھی یہ خیال تھا کہ اگر اس سے اجازت لے کر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا گیا تو شاید وہ اس بات کو اپنی حق تلفی سمجھتے ہوئے کسی وحشت و بیگانگی کا شکار ہو جائے، کیونکہ وہ نیا نیا حلقہ بگوش اسلام ہوا تھا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تالیف قلب اسی میں دیکھی کہ اس سے اجازت نہ لی جائے ۔
فقہاء اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ طاعات (یعنی امور اور عبادات ) میں ایثار جائز نہیں ہے ۔ یہ تو فقہاء کا قول ہے لیکن اس مسئلہ کا زیادہ واضح پہلو یہ ہے کہ اگر ایثار واجبات میں ہو تو حرام ہے، اور اگر فضائل و مستحبات میں ہو تو مکروہ ہے ، اس کو اور واضح طور پر یوں سمجھا جا سکتا ہے، مثلاً ایک شخص کے پاس صرف اتنا پانی ہے جس سے وہ خود وضو کر سکے لیکن اس نے وہ پانی کسی دوسرے شخص کو دے دیا، اور خود تیمم کر کے نماز پڑھی یا اس کے پاس محض اتنا کپڑا تھا جو اس کی ستر پوشی کے بقدر تھا لیکن اس نے وہ کپڑا کسی دوسرے شخص کو دے دیا اور خود ننگے بدن نماز پڑھی، اسی طرح کا ایثار جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے ، یہ تو واجبات میں ایثار کی صورت تھی، فضائل و مستحبات میں ایثار کی صورت یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص باجماعت نماز پڑھنے کے لئے پہلی صف میں امام کے قریب بیٹھا تھا لیکن اس نے وہ جگہ کسی دوسرے شخص کو دے دی اور خود پچھلی صف میں آ کر نماز پڑھی اس طرح کا ایثار اچھا نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے، طاعات کے برعکس دنیاوی امور میں ایثار ایک محمود و مستحسن عمل ہے، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بعض صوفیاء کے بارے میں یہ منقول ہے کہ انہوں نے بعض مواقع پر طاعات میں ایثار کی صورتیں اختیار کیں تو غالباً انہوں نے ایسا غلبہ حال کے سبب کیا ہو گا ۔

یہ حدیث شیئر کریں