مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ شکار اور ذبیحوں سے متعلق ۔ حدیث 3

کتے اور تیر کے ذریعہ کئے گئے شکار کا مسئلہ

راوی:

وعنه قال : قلت : يا رسول الله إنا نرسل الكلاب المعلمة قال : " كل ما أمسكن عليك " قلت : وإن قتلن ؟ قال : " وإن قتلن " قلت : إنا نرمي بالمعراض . قال : " كل ما خزق وما أصاب بعرضه فقتله فإنه وقيذ فلا تأكل "

اور حضرت عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تربیت یافتہ ( یعنی سکھائے ہوئے ) کتوں کو ( شکار کے پیچھے ) چھوڑتے ہیں !؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تمہارے کتے تمہارے لئے جو شکار پکڑ کر رکھیں ۔ " میں نے عرض کیا " اگرچہ وہ کتے شکار کو مار ڈالیں ؟ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہاں اگرچہ مار ڈالیں ! " پھر میں نے عرض کیا کہ " ہم شکار پر بغیر پر کا تیر چلاتے ہیں ( اور اس کے ذریعہ شکار کر لیتے ہیں تو کیا وہ شکار کھانا درست ہے ؟ ) " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شکار کو وہ تیر زخمی کر دے ( یعنی اگر وہ تیر سیدھا جا کر نوک کی جانب سے شکار کو لگے اور وہ مر جائے ) تو اس کو کھا لو اور اگر وہ تیر ( نوک کی جانب سے نہیں بلکہ ) عرض یعنی چوڑائی کی جانب سے جا کر اس شکار کو ( اس طرح ) لگے ( کہ وہ شکار کو زخمی نہ کرے ) اور وہ مر جائے تو وہ وقیذ ہے اس کو نہ کھاؤ ۔ " ( بخاری و مسلم )

تشریح
معراض " اس تیر کو کہتے ہیں جو بے پر کا ہو ۔ ایسا تیر سیدھا جا کر نوک کی طرف سے نہیں بلکہ چوڑائی کی طرف سے جا کر لگتا ہے ۔ " وہ وقیذ ہے ۔ " اصل میں وقیذ اور موقوذ اس جانور کو کہتے ہیں جو غیر دھار دار چیز سے مارا جائے خواہ وہ لکڑی ہو یا پتھر یا اور کوئی چیز ۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معراض یعنی بغیر پر کے تیر کے ذریعہ شکار کرنے کی صورت میں اگر وہ ( معراض ) اس شکار کو اپنی دھار کے ذریعہ مار ڈالے تو وہ حلال ہو گا اور اگر معراض نے اس کو اپنی چوڑائی کے ذریعہ مارا ہے تو وہ حلال نہیں ہو گا ، نیز علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ اس حدیث معراض سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ شکار حلال نہیں ہے جس کو بندقہ یعنی گولی اور غلہ کے ذریعہ مار ڈالا گیا ہو ۔
اور وہ شکار جو معراض کے چوڑان کی طرف سے ( چوٹ کھا کر ) مرا ہو اس لئے حلال نہیں ہوتا کہ مذکورہ صورت میں شکار کا زخمی ہونا ضروری ہے تاکہ ذبح کے معنی متحقق ہو جائیں جب کہ معراض کا چوڑان شکار کو زخمی نہیں کرتا اسی لئے وہ شکار بھی حلال نہیں ہوتا ، جو موٹی دھار کے بندقہ کے ذریعہ مار ڈالا گیا ہو ۔ کیونکہ بندقہ ہڈی کو توڑ دیتا ہے زخمی نہیں کرتا اس لئے وہ معراض کے حکم میں ہوتا ہے ہاں اگر بندقہ میں ہلکی دھار ہو اور شکار اس کے ذریعہ مر گیا ہو تو وہ حرام نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں اس کی موت زخم کے ساتھ محقق ہوئی ہے ۔
اگر کسی شخص نے شکار پر چھری یا تلوار پھینک کر ماری اور وہ شکار مر گیا تو وہ حلال ہو گا بشرطیکہ وہ چھری یا تلوار دھار کی طرف سے جا کر لگی ہو ورنہ حلال نہیں ہو گا ۔ اسی طرح اگر شکار کے کوئی ایسا ہلکا پتھر پھینک کر مارا گیا ہو جس میں دھار ہو اور شکار کو زخمی کر دے تو اس شکار کو بھی کھایا جا سکتا ہے کیونکہ اس صورت میں اس شکار کی موت زخم کے ذریعہ متیقن ہو گی جب کہ اگر شکار کو بھاری پتھر پھینک کر مارا گیا ہو تو اس کو کھانا جائز نہیں ہو گا اگرچہ وہ زخمی بھی کر دے کیونکہ اس صورت میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ وہ شکار اس پتھر کی چوٹ کے ذریعہ ( جیسے ہڈی وغیرہ ٹوٹنے کی وجہ سے ) مرا ہو ۔
حاصل یہ ہے کہ اگر شکار کی موت اس کے زخمی ہو جانے کی وجہ سے واقع ہوئی ہو اور اس کا یقین بھی ہو تو اس کو کھایا جا سکتا ہے اور اگر اس کی موت چوٹ کے اثر سے واقع ہوئی اور اس کا یقین ہو تو اس شکار کو قطعا نہ کھایا جائے اور اگر شک کی صورت ہو ( کہ اس کا مرنا زخمی ہونے کی وجہ سے بھی محتمل ہو اور چوٹ کے اثر سے بھی محتمل ہو ) تو بھی احتیاطا اس کو نہ کھایا جائے ۔

یہ حدیث شیئر کریں