مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ لباس کا بیان ۔ حدیث 386

بالوں کی سفیدی نورانیت کی غماز ہوتی ہے

راوی:

وعن كعب بن مرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من شاب شيبة في الإسلام كانت له نورا يوم القيامة . رواه الترمذي والنسائي . ( حسن )

اور حضرت کعب بن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اسلام کی حالت میں بوڑھا ہوتا ہے اس کا بڑھاپا قیامت کے دن نور کی صورت میں ظاہر ہو گا ۔" (ترمذی ، نسائی )

تشریح
اس موقعہ پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب بڑھاپا (یعنی بالوں کا سفید ہونا ) دنیا و آخرت دونوں جگہ نورانیت کا سبب ہے تو خضاب کے ذریعہ اس کو ظاہر نہ ہونے دینا اور اس کو تبدیل کرنا شریعت نے جائز کیوں قرار دیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خضاب کی مشروعیت بھی دراصل ایک دینی مصلحت کے سبب سے ہے اور وہ یہ کہ اس کے ذریعہ دشمنوں کے سامنے قوت و ہیبت کا اظہار ہوتا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کو ضعیف و نا تو اں جان کر دلیر نہ ہوں اس صورت میں پھر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذکورہ مصلحت کی خاطر خضاب کرنا مشروع ہے تو اسی مصلحت کے لئے بالوں کو جڑ سے اکھاڑنا پڑتا ہے جو اول تو تکلیف کا باعث ہے دوسرے بدہئیی اور بدنمائی کا سبب بھی بنتا ہے جب کہ خضاب کا لگانا خوش ہئیتی میں اضافہ کرتا ہے لہذا اخضاب کرنے اور بالوں کو چننے میں بڑا فرق ہے

یہ حدیث شیئر کریں