حمام میں جانے کا ذکر
راوی:
وعن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يدخل الحمام بغير إزار ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يدخل حليلته الحمام ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يجلس على مائدة تدار عليها الخمر . رواه الترمذي والنسائي .
اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنی عورت کو حمام میں داخل نہ ہونے دے " اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اس دستر خوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور چلتا ہو۔" (ترمذی ، نسائی )
تشریح
" اپنی عورت کو حمام میں داخل نہ ہونے دے " کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیوی کو حمام میں جانے کی اجازت نہ دے اس حکم میں ماں، بیٹی اور بہن وغیرہ ایسی عورتیں بھی شامل ہیں جو اس (مرد) کے قابو و اختیار میں ہوں، نیز مرد کے لئے یہ مکروہ ہے کہ وہ حمام میں جانے کی اجرت دینے کے لئے اپنی بیوی وغیرہ کو روپیہ پیسہ دے کیونکہ اس صورت میں وہ ایک مکروہ عمل کا مدد گار بنے گا ۔
فقہ کی بعض کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حمام میں جانا نقل کیا گیا ہے لیکن محدثین کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے اور اس کے بارے میں حدیث منقول ہے اس کو موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ بات درجہ صحت پایہ ثبوت کو پہنچی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی حمام میں نہیں گئے ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمام کی صورت بھی کبھی نہیں دیکھی ! رہی اس حمام کی بات جو مکہ معظمہ میں حمام النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے مشہور ہے تو ہو سکتا ہے کہ جس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی غسل کیا ہو گا اس کو حمام کی صورت دے دی گئی ہو اور پھر اس کو حمام النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہا جانے لگا ہو، نیز ایک احتمال یہ بھی ہے کہ وہ جگہ " حمام النبی صلی اللہ علیہ وسلم " اس مناسبت سے زبان زد خاص و عام ہو گئی ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مبارک کی جگہ اسی مقام کے اطراف و جوانب میں واقع ہے تاہم احادیث میں " حمام " کا ذکر ضرور موجود ہے جیسا کہ مذکورہ روایات سے ظاہر ہوا ۔
" اس دسترخوان پر نہ بیٹھے " کا مطلب یہ ہے کہ اس جگہ ہرگز نہ جائے جہاں شراب کا دور چلتا ہو اور شرابی لوگ وہاں مے نوشی کرتے ہوں ۔ لہٰذا وہاں جانے والا مسلمان اگر شراب نوشی میں شامل نہ بھی ہو تو اس صورت میں اس پر یہ تو واجب ہو ہی گا کہ وہ وہاں شراب پینے والوں کو اس برے فعل سے روکے لیکن وہاں پہنچ جانے کے باوجود اگر اس نے نہ تو ان لوگوں کو شراب پینے سے روکا، نہ ان سے بے اعتنائی کا برتاؤ کیا اور نہ ان کے خلاف اپنی نفرت و غصہ کا اظہار کیا تو یقینا اس کا شمار کامل مؤمنین میں نہیں ہو گا ۔
