مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ طب کا بیان ۔ حدیث 456

جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت

راوی:

وعن أنس قال رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم في الرقية من العين والحمة والنملة . رواه مسلم . ( متفق عليه )

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑ پھونک کے ذریعہ نظر بد، دنک اور نملہ کا علاج کرنے کی اجازت دی ہے ۔" (مسلم )

تشریح
" افسوں" سے مراد وہ جھاڑ پھونک ہے، جس میں حصول شفا کے لئے منقول دعائیں اور قرآنی آیات پڑھی جاتی ہیں ،" نظر بد" ایک حقیقت ہے جس کو بعض حضرات نے " زہر ' ' سے تعبیر کیا ہے ان حضرات کا کہنا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے بچھو کے ڈنک اور سانپ کے منہ میں زہر رکھا ہے اسی طرح بعض آدمیوں کی آنکھوں میں بھی زہر رکھا ہے کہ ان کی نظر جس چیز کو بھی لگ جاتی ہے خواہ وہ انسان ہو یا مال و اسباب، زمین جائیداد ہو یا کھیتی و باغات اور جانور ہو ، اس کو کھا جاتی ہے ۔چنانچہ نظر بد کے دفیعہ کے لئے دعا و تعویز اور جھاڑ پھونک نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقصد کے لئے مختلف دعائیں بھی تعلیم فرمائی ہیں جو دعاؤں کے باب میں گزر چکی ہیں ۔
" ڈنک " سے مراد زہریلہ ڈنک ہے جیسے بچھو کا ڈنک، سانپ کا ڈسنا بھی اسی کے حکم میں ہے اگر کسی شخص کو بچھو ڈنک مار دے یا سانپ ڈس لے تو اس کا زہر اتارنے کا بہترین ذر یعہ جھاڑ پھونک ہے ۔
" نملہ " اصل میں چیونٹی کو کہتے ہیں لیکن یہاں وہ پھوڑا مراد ہے جو آدمی کے پہلو میں ہو جایا کرتا ہے، کبھی یہ پھوڑا چھوٹی چھوٹی پھنسیوں کی صورت میں بھی ہوتا ہے جو پسلی کے اوپر نکل آتی ہیں ۔ نملہ پھوڑے میں آدمی کو ایسا محسوس ہوتا ہے ۔ جیسے چیوٹیاں رینگ رہی ہوں اور غالباً اسی مناسبت سے اس پھوڑے کو نملہ کہا گیا ہے اور اگر نملہ چھوٹی چھوٹی پھنسیوں کی صورت میں ہو تو اس میں وجہ مشابہت یہ ہو گی کہ وہ پھنسیاں چیونٹیوں کی طرح پھیلی اور بکھری ہوتی ہیں ۔
واضح رہے کہ جھاڑ پھونک کے ذریعہ ہر مرض کا علاج کرنا جائز ہے ، اس صورت میں خاص طور پر ان تین چیزوں کا ذکر محض اس لئے کیا گیا ہے کہ دوسرے امراض کی تہ نسبت ان تینوں میں جھاڑ پھونک کا اثر زیادہ اچھا ہوتا ہے اسی طرح جس روایت میں بطور حصر یہ فرمایا گیا ہے کہ جھاڑ پھونک صرف ان تین چیزوں میں جائز ہے اس کی تاویل بھی یہی ہو گی علاوہ ازیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب جن الفاظ و کلمات کے ذریعہ جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے ان سے اجتناب کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء اسلام میں مسلمانوں کو جھاڑ پھونک کرنے سے منع فرما دیا تھا پھر جب ان تینوں چیزوں میں جھاڑ پھونک کی اہمیت اور لوگوں کو اس سے حاصل ہونے والے فائدے کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین چیزوں میں منتر پڑھ کر پھونکنے کی اجازت دیدی بشرطیکہ اس منتر میں مشرکانہ الفاظ و کلمات استعمال نہ ہوں یہاں تک کہ بعد میں اس اجازت کو عام کر دیا گیا کہ کسی بھی مرض میں منقول دعاؤں اور قرآنی آیات کے ذریعہ جھاڑ پھونک کی جا سکتی ہے

یہ حدیث شیئر کریں