مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 585

اپنے گھر والوں کو بھی سلام کرو

راوی:

وعن قتادة قال قال النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخلتم بيتا فسلموا على أهله وإذا خرجتم فأودعوا أهله بسلام رواه البيهقي في شعب الإيمان مرسلا .

" اور حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم گھر میں گھسو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرو، اور جب گھر سے باہر نکلو تو اپنے گھر والوں کو سلام کے ذریعہ رخصت کرو، اس روایت کو بہیقی نے شعب الایمان میں بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

تشریح
اگر گھر میں کوئی فرد نہ ہو تو مستحب یہ ہے کہ اس طرح کہے السلام علینا وعباد اللہ الصالحین تاکہ وہاں جو فرشتے ہوں ان کو سلام پہنچے۔
حدیث کے الفاظ فاو دعو اھلہ بسلام میں ایداع اصل میں تو دیع کے معنی میں ہے جو وداع سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ گھر سے باہر جاتے وقت اپنے اہل و عیال کو سلام کے ذریعہ وداع کہو۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس رخصتی سلام کو جواب واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کیوں کہ یہ سلام اصل میں دعا اور وداع ہے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی یہ فرماتے ہیں کہ لفظ اودعو ایداع سے ہے بایں معنی کہ اپنے اہل و عیال کے پاس سلام کو ودیعت امانت رکھو۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب تم نے رخصت ہوتے وقت اپنے اہل و عیال کو سلام کیا تو گویا تم نے سلام کی خیر و برکت کو اپنے اہل و عیال کے پاس امانت رکھا جس کو تم آخرت میں واپس لو گے جیسا کہ کوئی شخص اپنی کوئی چیز کسی کے پاس امانت رکھتا ہے اور پھر اس کو واپس لے لیتا ہے یحییٰ کے مطابق مطلب یہ ہے کہ تم سلام کو اپنے گھر والوں کی ودیعت امانت و سپردگی میں دے دو تاکہ لوٹ کر ان کے پاس آؤ تو اپنی ودیعت امانت کو واپس لو جیسا کہ امانتیں واپس لی جاتیں ہیں یہ بات گویا اس امر کی نیک فال لینے کے مرادف ہے کہ گھر سے رخصت ہونے والا سلامتی کے ساتھ لوٹ کر آئے گا اسے دوبارہ سلام کرنے کا موقع نصیب ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں