مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 592

لکھتے وقت قلم کو کان پر رکھنے کی خاصیت

راوی:

عن زيد بن ثابت قال دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم وبين يديه كاتب فسمعته يقول ضع القلم على أذنك فإنه أذكر للمآل . رواه الترمذي وقال هذا حديث غريب وفي إسناده ضعف .

" اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ کے سامنے ایک خط لکھنے والا بیٹھا ہوا تھا میں نے آپ کو لکھنے والے سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قلم کو اپنے کان پر رکھ لو کیونکہ یہ چیز مطلب کو بہت یاد دلاتی ہے ۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں ضعف ہے۔

تشریح
یہ چیز مطلب کو بہت یاد دلاتی ہے " کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنے سے ذہن کے دریچے کھل جاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے مقصد اور مفہوم کو بیان کرنے کے لئے عبارت والفاظ کی آمد ہونے لگتی ہے اور لکھنے والا جو کچھ لکھنا چاہتا ہے اس میں پوری طرح کامیاب رہتا ہے یہ چیز بھی بالخاصیت ہے یعنی ایسا کس طرح ہوتا ہے؟ اس کا علم شارع ہی کو ہے تاہم بعض علماء نے اس کی تاویل و توجہیہ بیان کی ہے ۔ یحییٰ نے لکھا ہے کہ قلم ایک طرح سے زبان کا حکم رکھتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے القلم احدالسانین اور زبان قلب و ذہن کی ترجمان ہوتی ہے لہذا قلم کو کان پر رکھنا گویا زبان کو کان پر جو کہ سننے کی جگہ ہے رکھنے کے مرادف ہے تاکہ زبان ، قلم قلب و ذہن کے قریب ہو جائے اور قلب و ذہن جو کچھ کہنے کا ارادہ کریں اور وہ مفہوم کو جس اعلی عبارت و پیرایہ بیان اور جس عمدہ الفاظ اوسلوب میں ادا کرنے کا تقاضہ کریں ان کو کلام و بیان کی اسی مناسبت و موزو نیت کے ساتھ بصورت تحریر بیان کرے۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے کا مطلب یہ ہے کہ روایت متن یا سند کے اعتبار سے غریب ہے اور اپنے بعض راویوں کے ضعف کے سبب ضعیف ہے تاہم یہ بات اس روایت کے صحیح ہونے کے منافی نہیں ہے نیز اس کی تائید ابن عساکر کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ اذاکتبت قضع قلمک علی اذنک فانہ اذکرلک اسی طرح جامع صغیر میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق مرفوع ترمذی کی یہ روایت منقول ہے کہ ضع القلم علی اذنک فانہ ذکر للملیٰ۔

یہ حدیث شیئر کریں