مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 598

سلام کی فضیلت

راوی:

وعن الطفيل بن أبي بن كعب أنه كان يأتي ابن عمر فيغدو معه إلى السوق . قال فإذا غدونا إلى السوق لم يمر عبد الله بن عمر على سقاط ولا على صاحب بيعة ولا مسكين ولا أحد إلا سلم عليه . قال الطفيل فجئت عبد الله بن عمر يوما فاستتبعني إلى السوق فقلت له وما تصنع في السوق وأنت لا تقف على البيع ولا تسأل عن السلع وتسوم بها ولا تجلس في مجالس السوق فاجلس بنا ههنا نتحدث . قال فقال عبد الله بن عمر يا أبا بطن قال وكان الطفيل ذا بطن إنما نغدو من أجل السلام نسلم على من لقيناه . رواه مالك والبيهقي في شعب الإيمان .

" اور حضرت طفیل بن ابی ابن کعب سے روایت ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور پھر صبح کے وقت ان کے ساتھ بازار جایا کرتے تھے۔ حضرت طفیل کہتے ہیں کہ جب ہم صبح کے وقت بازار میں جاتے تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس بساطی جس بیچنے والے جس مسکین اور جس کسی شخص کے پاس سے بھی گزرتے اس کو سلام کرتے حضرت طفیل کہتے ہیں کہ ایک دن معمول کے مطابق میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور وہ مجھ کو اپنے ہمراہ بازار لے جانے لگے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ بازار جا کر کیا کریں گے آپ نہ تو کسی خرید و فروخت کی جگہ ٹھہرتے ہیں اور نہ کسی بیچی جانے والی چیز کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ نہ تو مول تول اور کوئی سودا کرتے ہیں اور نہ بازار کی کسی مجلس میں شریک ہوتے ہیں لہذا بازار جانے سے اچھا تو یہی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ یہیں بیٹھتے تاکہ کچھ باتیں ہی کریں حضرت طفیل کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر مجھ سے کہا کہ اے بڑے پیٹ والے راوی کا بیان ہے کہ طفیل کا پیٹ بڑا تھا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم خرید و فروخت کرنے یا کسی اور غرض سے بازار جایا کرتے ہیں نہیں بلکہ ہم صرف سلام کرنے کی غرض سے جاتے ہیں اور ہر اس شخص کو سلام کرتے ہیں جو ہم کو ملتا ہے اور اس طرح ہم بازار جا کر ثواب حاصل کرتے ہیں۔ (مالک، بہیقی)

یہ حدیث شیئر کریں