حدی کا جواز
راوی:
وعن أنس قال كان للنبي حاد يقال له أنجشة وكان حسن الصوت . فقال له النبي صلى الله عليه وسلم رويدك يا أنجشة لا تكسر القوارير . قال قتادة يعني ضعفة النساء . متفق عليه
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حدی خواں تھے جن کا نام ابخشہ تھا وہ بہت خوش آواز تھے ایک سفر کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ابخشہ اونٹوں کو آہستہ آہستہ ہانکو اور شیشوں کو نہ توڑو۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حدیث کے ایک راوی کہتے ہیں کہ شیشوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عورتیں تھیں۔ (بخاری)
" حدی" صراح کے مطابق اس بلند آواز گانے کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اونٹوں کوہانکاجاتا ہے لغت کی بعض دوسری کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ حدی، عرب شتربانوں کے نغمہ کو کہتے ہیں چنانچہ عرب میں دستور ہے کہ شتربان اونٹ ہانکنے والاجب یہ دیکھتا ہے کہ اس کا اونٹ تھک گیا ہے یا اس کی چال سست ہوگئی ہے توبلند آواز اور خوش گوئی کے ساتھ گانے لگتا ہے اس گانے کی آواز گویااونٹ میں چستی وگرمی پیدا کر دیتی ہے جس سے وہ تیز رفتاری کے ساتھ چلنے لگتا ہے کتابوں میں لکھا ہے کہ حدی جو گانے ہی کی ایک قسم ہے مباح ہے اور اس کے بارے میں علماء میں سے کسی کا کوئی اختلافی قول نہیں ہے۔
" قواریر" قارورہ کی جمع ہے جس کے معنی شیشہ کے ہیں، اس ارشاد گرامی شیشوں کو نہ توڑو کے دومعنی ہیں ایک تو یہ کہ عورتوں کے بدن میں جوفطری نزاکت وکمزوری ہوتی ہے اس کی بنا پر اونٹوں کا تیز چلنا اور ہچکولے لگنا ان کے سخت تعجب وتکلیف کاموجب بن جاتا ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شتربان ابخشہ کو حکم دیا کہ اونٹ کو اتنی تیزی کے ساتھ نہ بھگاؤ کہ اس پر سوار عورتیں ہچکولے کھانے لگیں اور اس کی وجہ سے ان کو تکلیف وپریشانی کا سامنا کرناپڑے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ عورتوں کے دل کی کمزوری ونرمی کی طرف اشارہ کرنامقصود تھایعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابخشہ کو ہدایت کی اس طرح حدی خوانی نہ کرو جس سے عورتوں کے دل کمزور ، متاثر ہوجائیں اور تمہارے گانے کی وجہ سے ان کے ذہن ودماغ اور جذبات میں ہلچل پیدا ہوجائے اور وہ کسی برے خیال میں مبتلا ہوجائیں کیونکہ گانے کی خاصیت ہی یہ ہے کہ وہ طبیعت کو بھڑکاتا ہے اور جذبات میں ہلچل مچادیتا ہے اگرچہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس موقع پر یہ ارشاد فرمایا اس وقت اونٹ پر ازواج مطہرات میں سے کوئی زوجہ مطہرہ سوار ہوں گی اور اس صورت میں مطلب غیر موزوں معلوم ہوتا ہے کیونکہ مذکورہ احتمال یعنی گانے کی آواز سن کر جذبات میں ہلچل پیدا ہوجانا ازواج مطہرات کے حق میں نہایت کمزور ضعیف ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کسی برے خیال کا پیدا ہوجانا اور طبیعت و دل کا کسی وسوسے میں مبتلا ہوجانا ایک طبعی چیز جو کسی انسان کے اختیار کی پابند نہیں ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مناسب سمجھا کہ احتیاط کی راہ ظاہر فرمادیں کہ بہر صورت احتیاط کی راہ اختیار کرنا ہی بہتر ہے اور اولی ہے۔ یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا تعلق درحقیقت امت کے لوگوں کو تعلیم وتلقین سے ہے یعنی آپ نے اس موقع پر مذکورہ ارشاد کے ذریعہ پوری امت کو ہدایت فرمائی کہ جب اونٹ پر عورتیں سوار ہوں تو ان کی موجودگی کو ملحوظ رکھاجائے اور حدی خوانی میں احتیاط ومصلحت کونظر انداز نہ کیا جائے۔ اوپر جو دو معنی بیان کئے گئے ہیں ان میں سے دوسرے مطلب کو اکثر شارحین نے ترجیح دی ہے لیکن روایت کے الفاظ کا تقاضا یہ ہے کہ پہلا مطلب صحیح ماناجائے۔
