مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ شکار کا بیان ۔ حدیث 8

غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام ہے

راوی:

وعن أبي الطفيل قال : سئل علي : هل خصكم رسول الله صلى الله عليه و سلم بشيء ؟ فقال : ما خصنا بشيء لم يعم به الناس إلا ما في قراب سيفي هذا فأخرج صحيفة فيها : " لعن الله من ذبح لغير الله ولعن الله من سرق منار الأرض وفي رواية من غير منار الأرض ولعن الله من لعن والده ولعن الله من آوى محدثا " . رواه مسلم

" اور حضرت ابوطفیل کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ سوال کیا گیا کہ " کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ ( اہل بیت ) کو کسی چیز کے ذریعہ خصوصیت و امتیاز عطا کیا ہے یعنی کیا یہ صحیح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ لوگوں کو جو اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کچھ ایسے احکام دیئے ہیں جو اور دوسرے لوگوں کو نہیں دیئے ہیں ؟ " حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا " ( نہیں !) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے کوئی ایسی چیز مخصوص نہیں کی ہے جو اور دوسروں کے لئے عام نہ کی گئی ہو ، علاوہ اس چیز کے جو میری تلوار کی نیام میں ( چند احکام کے مجموعہ کی صورت میں ) موجود ہے ( لیکن ان احکام کے بارے میں بھی، میں یہ نہیں جانتا کہ وہ احکام آیا محض ہم اہل بیت کے لئے خاص ہیں یا ان کا تعلق عمومی طور پر پوری امت سے ہے ) " پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ( اپنی تلوار کی نیام میں سے ) ایک کاغذ نکالا جن میں یہ احکام درج تھے کہ " اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو غیر اللہ کے نام پر کسی جانور کو ذبح کرے ، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو زمین کا نشان چرائے ۔" اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ( اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو ) جو زمین کے نشان میں تغیر و تبدل کرے ۔ اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو اپنے باپ پر لعنت کرے اور اس شخص پر لعنت ہو جو کسی بدعتی کو ٹھکانا دے ۔ " ( مسلم )

تشریح
" زمین کے نشان " سے مراد وہ علامتی پتھر وغیرہ ہے جو زمین کی حدود پر نصب ہوتا ہے اور جس کے ذریعہ ایک دوسرے کی زمین کے درمیان فرق و امتیاز کیا جاتا ہے ۔ اور اس نشان کو چرانے یا اس میں تغیر و تبدل کرنے کا مطلب یہ ہے ، کہ وہ شخص بزور و زبردستی اپنے ہمسایہ کی زمین دبا لینا چاہتا ہو ۔
" جو اپنے باپ پر لعنت کرے " یعنی یا تو اپنے باپ پر خود صریحا لعنت کرے یا کسی دوسرے شخص کے باپ پر لعنت کرے اور وہ شخص انتقاما اس کے باپ پر لعنت کرے ، اس دوسری صورت میں اس نے اگرچہ اپنے باپ پر خود صریحا لعنت نہیں کی ہے مگر اس لعنت کا سبب چونکہ وہی بنا ہے اس لئے کہا جائے گا کہ گویا اس نے اپنے باپ پر لعنت کی ہے ۔
" جو کسی بدعتی کو ٹھکانا دے " بدعتی اس شخص کو کہتے ہیں جو دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے جس کی کچھ اصل موجود نہ ہو اور وہ بات شریعت کے خلاف اور سنت میں تبدیلی پیدا کرنے والی ہو ۔ ایسے شخص یعنی بدعتی کو ٹھکانا دینا اس کی عزت و تعظیم کرنا اور اس کی مدد و حمایت کرنا ۔ شریعت کی نظر میں قابل مواخذہ ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں