آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے تئیں سردار کہلانے سے انکار
راوی:
وعن مطرف بن عبد الله الشخير قال قال أبي انطلقت في وفد بني عامر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلنا أنت سيدنا . فقال السيد الله فقلنا وأفضلنا فضلا وأعظمنا طولا . فقال قولوا قولكم أو بعض قولكم ولا يستجرينكم الشيطان . رواه أحمد وأبو داود
" اور حضرت مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میرے والد حضرت عبداللہ نے بیان کیا کہ بنو عامر کا جو وفد رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اس میں بھی شریک تھا چنانچہ جب ہم آپ کی خدمت میں پہنچے تو ہم نے عرض کیا کہ آپ ہمارے سردار ہیں آپ نے فرمایا سردار تو اللہ ہے ہم نے عرض کیا آپ بھلائی و بہتری کے اعتبار سے ہم میں سب سے بہتر ہیں اور بخشش کے اعتبار سے ہم میں سے بزرگ و برتر ہیں آپ نے فرمایا ہاں اس طرح کہو بلکہ اس سے بھی کم درجہ کے الفاظ استعمال کرو یعنی میری تعریف ومدح میں مبالغہ آرائی سے کام نہ لو اور ان صفات کو میری طرف منسوب نہ کرو جو صرف اللہ کی ذات سے مخصوص ہیں تم نے آخر میں جو بات کہی ہے زیادہ سے زیادہ اسی حد تک میری تعریف کر سکتے ہو بلکہ میرے تئیں اس سے بھی ہلکے درجہ کی تعریف کرو تو زیادہ بہتر ہے اور دیکھو شیطان تم کو اپنا وکیل نہ بنائے۔ (ابوداؤد)
تشریح
لفظ " جری " کے معنی وکیل کے ہیں جو اپنے موکل کا جاری مجری یعنی قائم مقام ہوتا ہے لہذا لا یستجرینکم الشیطن کا مطلب یہ ہے کہ تم میری تعریف ایسے الفاظ اور ایسے انداز میں نہ کرو جس سے یہ معلوم ہوا کہ شیطان لعین نے تمہیں اپنا وکیل و قائم مقام بنا لیا ہے اور تم اس کی وکالت کے طور پر بلاتامل جو چاہتے ہو کہتے چلے جا رہے ہو چنانچہ وہ لوگ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں جو ذات رسالت کی منقبت و تعریف میں حد سے زیادہ تجاوز کرتے ہیں اور نبی کو اتنا بڑھاتے ہیں کہ گویا بندے کو اللہ کا درجہ دیدیتے ہیں جیسے مروج مولود کے قصائد نقلیہ میں ایسے الفاظ و بیان اختیار کئے جاتے ہیں کہ جن سے پروردگار کی شان میں بڑی بے ادبی ہوتی ہے۔ بعض روایات میں اس" یستجرینکم" میں یاء کی بجائے ہمزہ ہے اس صورت میں یہ لفظ جری کے بجائے جوات سے ہوگا اور معنی یہ ہوں گے کہ شیطان تم کو میری تعریف میں اس طرح اور بے باک نہ بنا دے کہ غلط سلط اور خلاف حقیقت جو کچھ کہنا چاہو بے جھجک کہنے لگو۔
" سردار تو بس اللہ ہے" سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ وہ ذات جو کہ مخلوق کے تمام امور کی حقیقی مالک ہے اور وہ ذات کہ ہر ایک پر فرمانبروائی و حکمرانی کی سزاوار ہے اور جس کے دست قدرت میں تمام تر نظم وتصرف ہے صرف اللہ کی ذات ہے نہ کہ کوئی اور شخص۔علماء نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس جماعت کی طرف سے اپنے آپ کو سردار کہے جانے کی ممانعت کرنا اس سبب سے نہیں تھا کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں سرداری وسیادت کو ثابت کیا تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ تمام اولاد آدم کے سردار ہیں بلکہ آپ کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لفظ سید سردار کے ذریعہ اس انداز مخاطب کیا تھا کہ جس طرح کسی قوم قبیلہ کے سردار کو مخاطب کیا جاتا ہے حالانکہ ان لوگوں کو چاہیے تھا کہ وہ آپ کو لفظ نبی یا رسول اللہ کے ذریعہ مخاطب کرتے جو بشریت کا سب سے اعلی مرتبہ ہے۔
