مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ نیکی و صلہ رحمی کا بیان ۔ حدیث 863

بغاوت اور قطع رحم وہ گناہ ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں عذاب ہوتا ہے۔

راوی:

وعن أبي بكرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من ذنب أحرى أن يعجل الله لصاحبه العقوبة في الدنيا مع مايدخر له في الآخرة من البغي وقطيعة الرحم . رواه الترمذي وأبو داود

" اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کوئی گناہ اس بات کے زیادہ لائق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی اس کی سزا دیدے اور مرتکب کو آخرت میں بھی دینے کے لئے اس سزا کو اٹھا رکھے ہاں دو گناہ بیشک اس بات کے لائق ہیں کہ ایک تو امام وقت کے خلاف بغاوت کرنا اور دوسرے ناتا توڑنا۔ (ترمذی، ابوداؤد)

تشریح
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اپنے ملک کے سربراہ اور قانونی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا اور ناتا توڑنا یعنی اپنے اعزاء و قرباء کے ساتھ بدسلوکی اور ان کے حقوق کی ادائیگی سے اعرض کرنا بڑا سخت گناہ اور نہایت غمگین بات ہے چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ ان دونوں گناہوں کے مرتکب کو محض آخرت ہی میں عذاب نہیں دیا جائے گا بلکہ اللہ ان کو سزا دینے میں جلدی کرے گا بایں طور کہ ان کو دنیا میں بھی اپنے ان گناہوں کی سزا بھگتنی پڑے گی گویا ایسے لوگ نہ دنیا میں چین پا سکتے ہیں اور نہ آخرت میں یہاں بھی سزا پائیں گے خواہ اس کی صورت کچھ ہی ہو اور وہاں بھی عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے کیونکہ یہ دونوں گناہ اس طرح ہیں کہ ان کے اثرات صرف دینی زندگی کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ دنیا میں بھی برے نتائج مرتب کرتے ہیں چنانچہ حکومت کے خلاف بغاوت برپا کرنے سے سارے ملک کا نظم ونسق درہم برہم ہو جاتا ہے پوری قوم سخت افراتفری اور مختلف مصائب و آلام میں مبتلا ہو جاتی ہے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا کہ قومی اور ملی توانائی ناگہانی کا شکار ہو جاتی ہے جس سے دشمن غالب آ جانے کا موقع ملتا ہے اور سی طرح ناتا توڑنے سے آپس میں نفرت و عداوت پیدا ہوتی ہے اور دلوں میں کدورت کو راہ مل جاتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اعزاء اور اقرباء جو باہم محبت و موانست کے ذریعہ ایک دوسرے کے دکھ دردوں میں شریک ہو کر ایک پر سکون بخش ماحول پیدا کر سکتے ہیں اور آپس کے میل جول کے سبب سے بڑی سے بڑی مصیبت اور سخت سے سخت حالات کو انگیز کرنے کی طاقت فراہم کر سکتے ہیں وہ باہمی لڑائی جھگڑے اور افتراق و انتشار کی وجہ سے سخت جسمانی و روحانی اذیت نا کیوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں لہذا ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کو دنیا میں زیادہ ڈھیل نہیں دی جاتی بلکہ اللہ کی طرف سے ان کی سزا کا فیصلہ جلد صادر ہو جاتا ہے تاکہ وہ پہلے تو دنیا میں اپنے کئے کی سزا بھگت کر دوسروں کے لئے سامان عبرت بنیں اور پھر آخرت میں بھی عذاب میں مبتلا ہوں۔ یہ بات واضح ہے کہ دنیا میں سزا پانا اور آخرت میں بھی عذاب کا مستوجب ہونا محض ان دو گناہوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ کچھ اور گناہ بھی انہی کی طرح کے ہوں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں گناہ ان میں بدتر اور زیادہ ہیبت ناک ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں