مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ نیکی و صلہ رحمی کا بیان ۔ حدیث 869

کسی مصیبت کے وقت اپنے نیک اعمال کے وسیلہ سے دعا مانگنا مستحب ہے

راوی:

عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال بينما ثلاثة نفر يماشون أخذهم المطر فمالوا إلى غار في الجبل فانحطت على فم غارهم صخرة من الجبل فأطبقت عليهم فقال بعضهم لبعض انظروا أعمالا عملتموها لله صالحة فادعوا الله بها لعله يفرجها . فقال أحدهم اللهم إنه كان لي والدان شيخان كبيران ولي صبية صغار كنت أرعى عليهم فإذا رحت عليهم فحلبت بدأت بوالدي أسقيهما قبل ولدي وإنه قد نأى بي الشجر فما أتيت حتى أمسيت فوجدتهما قد ناما فحلبت كما كنت أحلب فجئت بالحلاب فقمت عند رؤوسهما أكره أن أوقظهما وأكره أن أبدأ بالصبية قبلهما والصبية يتضاغون عند قدمي فلم يزل ذلك دأبي ودأبهم حتى طلع الفجر فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا فرجة نرى منها السماء ففرج الله لهم حتى يرون السماء .
قال الثاني اللهم إنه كان لي بنت عم أحبها كأشد ما يحب الرجال النساء فطلبت إليها نفسها فأبت حتى آتيها بمائة دينار فلقيتها بها فلما قعدت بين رجليها . قالت يا عبد الله اتق الله ولا تفتح الخاتم فقمت عنها . اللهم فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا منها ففرج لهم فرجة .
وقال الآخر اللهم إني كنت استأجرت أجيرا بفرق أرز فلما قضى عمله قال أعطني حقي . فعرضت عليه حقه فتركه ورغب عنه فلم أزل أزرعه حتى جمعت منه بقرا وراعيها فجاءني فقال اتق الله ولا تظلمني وأعطني حقي . فقلت اذهب إلى ذلك البقر وراعيها فقال اتق الله ولا تهزأ بي . فقلت إني لا أهزأ بك فخذ ذلك البقر وراعيها فأخذ فانطلق بها . فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج ما بقي ففرج الله عنهم . متفق عليه

" حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قوم کا یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ تین آدمی ایک ساتھ کہیں چلے جا رہے تھے کہ راستہ میں سخت بارش نے ان کو آ لیا وہ اس بارش سے بچنے کے لئے پہاڑ کے ایک غار میں گھس گئے اتنے میں پہاڑ سے ایک بڑا پتھر گر کر اس غار کے منہ پر آ پڑا ان تینوں پر باہر نکلنے کا راستہ بند کر دیا وہ تینوں اس صورت حال سے سخت پریشان ہوئے اور اس غار میں سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آئی، تو آپس میں کہنے لگے کہ اب تم اپنے ان اعمال پر نظر ڈالو جو تم نے کسی دنیاوی فائدہ کی تمنا اور جذبہ نام و نمود کے بغیر محض اللہ کی خوشی کے لئے کئے ہوں اور ان اعمال کے وسیلہ سے اللہ سے دعا مانگو شاید اللہ ہماری نجات کے راستہ کھول دے چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا اے اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میرے ماں باپ بوڑھے تھے اور میرے کئی چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے اور میں بکریاں چرایا کرتا تھا کہ ان کے دودھ کے ذریعہ ان سب کا انتظام کر سکوں، چنانچہ جب میں شام کو اپنے گھر والوں کے پاس لوٹتا اور بکریوں کا دودھ نکالتا تو اپنے ماں باپ سے ابتداء کرتا اور ان کو اپنی اولاد سے پہلے دودھ پلاتا ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ چراگاہ کے درخت مجھے دور لے گئے یعنی میں بکریوں کا چراتا ہوا بہت دور نکل گیا یہاں تک کہ شام ہو گئی اور میں گھر واپس نہ آ سکا جب رات کو گھر پہنچا تو اپنے ماں باپ کو سوتے ہوئے پایا پھر میں نے اپنے معمول کے مطابق دودھ دوہا اور دودھ سے بھرا ہو برتن لے کر ماں باپ کے پاس پہنچا اور ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا کہ میں نے یہ ناپسند کیا کہ ان کو جگاؤں اور نہ ہی یہ گوارا کیا کہ ان سے پہلے اپنے بچوں کو دودھ پلاؤں جب کہ وہ بچے میرے پیروں کے پاس پڑے ہوئے مارے بھوک کے رو بلک رہے تھے اور وہ سب اپنے حال پر قائم رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی یعنی پوری رات اسی حالت میں دودھ کا برتن لئے ماں باپ کے سرہانے کھڑا رہا وہ دونوں سوتے رہے اور میرے بچے بھوک سے بیتاب ہو کر روتے رہے پس اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام محض تیری رضا اور خوشنودی کی طلب میں کیا ہے تو میں اپنے اس عمل کے واسطہ دیتے ہوئے تجھ سے التجا کرتا ہو کہ تو ہمارے لئے اس پتھر کو کو اتنا کھول دے کہ اس کشادگی کے ذریعہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں، چنانچہ اللہ نے اس کی دعا قبول فرمائی اور اس پتھر کو اتنا سرکا دیا کہ ان کو آسمان نظر آنے لگا۔ دوسرے شخص نے اس طرح کہا کہ اے اللہ میرے چچا کی ایک بیٹی تھی میں اس کو اتنا ہی زیادہ چاہتا تھا جتنا زیادہ کوئی مرد کسی عورت کو چاہ سکتا ہے جب میں نے اس سے اپنے آپ کو میرے سپرد کر دینے کی خواہش ظاہر کی تو اس نے یہ کہہ کر میری خواہش ماننے سے انکار کر دیا کہ جب تک میں سو دینار اس کو پیش نہ کروں میری جنسی خواہش پوری نہیں ہو گی پھر میں نے محنت و مشقت کر کے سو دینار فراہم کئے ان دیناروں کو لے کر اس کے پاس پہنچا وہ اپنی شرط پوری ہو جانے پر میری خواہش کے لئے راضی ہو گئی جب میں جنسی فعل کے لئے اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھا تو وہ کہنے لگی کہ بندہ اللہ اللہ سے ڈر اور میری مہر امانت کو توڑنے سے باز رہ یعنی اس نے مجھے اللہ کا خوف دلاتے ہوئے التجا کی کہ میری آبرو کو نہ لوٹو اور حرام طور پر ازالہ بکارت کر کے میرے پردہ ناموس کو جو کسی کی امانت ہے یوں تار تار نہ کرو میں یہ سنتے ہی خوف اللہ سے کانپنے لگا اور اپنے نفس کی گمراہی پر شرمسار ہو کر اس کے پاس سے اٹھ کھڑا ہو پس اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میرا یہ عقل یعنی قابو حاصل ہونے کے باوجود اس کو چھوڑ کر ہٹ جانا اپنے نفس کو کچل دینا محض تیری رضا و خوشنودی کی طلب میں تھا تو میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تو اس پتھر کر ہٹا کر ہمارے لئے راستہ کھول دے چنانچہ اللہ اس شخص کی دعا بھی قبول فرمائی اور اس پتھر کو تھوڑا سا اور سرکا دیا پھر تیسرے شخص نے اس طرح کہنا شروع کیا اے اللہ میں نے ایک مزدور کو ایک فرق چاول کے عوض مزدوری پر لگایا جب اس نے اپنا کام پورا کیا تو مطالبہ کیا کہ میری اجرت دو میں نے اس کی اجرت دی مگر وہ بے نیازی کے ساتھ اس کو چھوڑ کر چلا گیا پھر میں نے ان چاولوں کو اپنی زراعت میں لگایا اور کاشت کرتا رہا یہاں تک کہ انہی چاولوں کے ذریعہ میں نے بیل اور ان بیلوں کے چرواہیے جمع کر لئے پھر ایک بڑے عرصہ کے بعد وہ مزدور میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ سے ڈرو مجھ پر ظلم نہ کرو اور میرا حق مجھ کو واپس کرو میں نے کہا بے شک تیرا حق مجھ پر واجب ہے ان بیلوں اور ان چرواہوں کے پاس جاؤ اور ان کو اپنے قبضہ میں لے لو اس نے میری بات سن کر بڑی حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا اللہ سے ڈرو اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو میں نے کہا کہ میں تم سے مذاق نہیں کر رہا ہوں جا کر ان بیلوں اور ان کے چرواہوں کو لے لو اس کے بعد اس نے ان سب کو اپنے قبضہ میں کیا ورچلا گیا پس اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرا وہ عمل محض تیری رضا اور خوشنودی کی طلب میں تھا تو میں اپنے اس عمل کے واسطے سے التجا کرتا ہوں کہ تو یہ پتھر جتنا بھی باقی رہ گیا ہے اس کو سرکا دے ، چنانچہ اللہ نے غار کے منہ کا باقی حصہ بھی کھول دیا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
" جب کہ وہ بچے میرے پیروں کے پاس پڑے ہوئے۔ الخ۔ ۔سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ جس قوم کے افراد کے متعلق ہے اس کی شریعت میں ماں باپ کا حق اولاد کے نفقہ و حق پر مقدم تھا جب ہی تو اس شخص نے ماں باپ کو دودھ پلانے سے پہلے اپنے بچوں کو دودھ پلانا گوارا نہیں کیا حالانکہ بھوک کی شدت سے رات بھر روتے رہے لیکن بعض حضرات کے قول کے مطابق ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے اپنے بچوں کو بقدر رسد رمق تو دودھ پلا دیا تھا مگر وہ اتنی مقدار پر مطمئن نہیں ہوئے تھے اور مزید دودھ پلانے کے رو چلا رہے تھے۔" فرق" مدینہ میں ایک رائج پیمانہ کا نام تھا جس میں سولہ رطل یعنی تقریبا آٹھ سیر غلہ آتا تھا یہ پیمانہ عام طور پر غلہ وغیرہ کے لین دین میں ناپ تول کے کام آتا تھا ۔
" بیلوں کے چرواہے" سے مراد وہ غلام ہیں جو کھیتی باڑی کے کام، چوپایوں کے دیکھ بھال اور ان کو چرانے پر مامور ہوتے تھے حدیث میں ان چاولوں کی کاشت سے حاصل ہونے والے مال کے طور پر صرف بیلوں اور چراہوں کا ذکر اکثر و اغلب کے اعتبار سے ہے کہ اس شخص نے ان چاولوں کو اپنی زراعت میں لگا کر بہت کچھ حاصل کیا یہاں تک کہ میرے پاس بہت زیادہ مال و اسباب جمع ہو گیا جیسے بیل اونٹ، گوسفند اور غلام وغیرہ۔
اس حدیث سے مختلف مسائل اخذ کئے جاتے ہیں چنانچہ اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ کسی سخت آفت کے وقت اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنا کر اللہ سے دعا مانگنا مستحب ہے جیسا کہ اللہ نے ان تنیوں کی دعا قبول کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس واقعہ کو مدح و تعریف اور ذکر فضیلت کے طور پر صحابہ کے سامنے بیان کرنا اس امر کی دلیل ہے اور اگر یہ مستحب نہ بھی ہو تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا ان کو اپنے بال بچوں پر ترجیح دینا ان کو کسی تکلیف و مشقت میں مبتلاکرنے سے اجتناب اور بہر صورت ان کے آرام و سکون کو مدنظر رکھنا بڑی فضیلت کی بات ہے۔
تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جو شخص سو رہا ہو اور خاص طور پر وہ شخص جو قابل احترام ولائق تعظیم ہو تو اس کو نیند سے اٹھانا مکروہ ہے علاوہ اس صورت کے جب کہ اس نے نماز نہ پڑھی ہو اور فرض نماز کا وقت ختم ہو رہا ہو۔
چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ نیند کی راحت کھانا کھانے سے زیادہ لذت آمیز ہے کہ نیند کا مزہ بھوک کی حالت میں بھی غالب رہتا ہے ۔
پانچویں بات یہ معلوم ہوئی کہ عفت و پارسائی اور انسانی نفس کو حرام امور سے باز رکھنا خصوصا اس صورت میں جبکہ کسی طرح کی کوئی رکاوٹ بھی سامنے نہ ہو بڑی فضیلت کی بات ہے اور انسانی کردار کی پختگی و عظمت کی دلیل ہے چنانچہ نفس کی خواہش اور خاص طور پر جنسی خواہش کہ جو دوسری تمام خواہشات کے مقابلہ میں کہیں زیادہ غالب اور سرکش ہے انسان کو سخت ترین حالات سے دو چار کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے تو عقل اور حرام و حلال کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت تک ختم ہو جاتی ہے لہذا جنسی خواہش کے اس قدر شدید غلبہ کی صورت میں جب کہ اس خواہش کی تکمیل کے درمیان کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو کسی مرد کا عین موقع پر نفس کو کچل دینا اور حرام کاری سے باز رہنا ایک مثالی عظمت کردار کا مظہر ہے۔
چھٹی بات یہ معلوم ہوئی کہ غیر کے مال میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا جائز ہوتا ہے بشرطیکہ اس کی اجازت حاصل ہو جائے اس کے بعد، جیسا کہ حضرت امام ابوحنیفہ کا مسلک ہے کہ فضولی کا تصرف جائز ہو جاتا ہے اور یہ جواز مالک کی اجازت پر موقوف رہتا ہے کہ اگر مالک اجازت دے دیتا ہے تو وہ تصرف نافذ العمل قرار پایا جاتا ہے۔
ساتویں بات یہ معلوم ہوئی کہ نیک عہد و اقرار ، ادئیگی امانت اور خوش معاملگی نہ صرف بہتر چیز ہے بلکہ انسان کو قرب الٰہی سے ہمکنار کرنے اور آفات مصائب سے نجات دلانے کا باعث ہے۔
آٹھویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ بندہ کسی آفت و بلا میں گرفتار ہو جانے پر دعا کرنا بہتر ہے کیونکہ وہ دعا قبول ہوتی ہے اور بندہ کو اس آفت و بال سے نجات دلانے کا سبب بنتی ہے۔
اور نویں بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کے نیک صالح بندوں کے ذریعہ ایسی چیزوں کا ظاہر ہونا جو عام انسانی عادات کے خلاف ہوں اور جن کو کرامات کہا جاتا ہے بر حق ہے اور کرامات کی سچائی میں کوئی شبہ نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں