مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ اللہ کے ساتھ اور اللہ کے لیے محبت کرنے کا بیان ۔ حدیث 892

اپنے مسلمان بھائی کے لئے اسی چیز کو اچھا سمجھو جس کو اپنے لئے اچھا سمجھتے ہو

راوی:

وعن أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده لا يؤمن أحد حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه . متفق عليه . ( متفق عليه )

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا قسم ہے اس اللہ کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی چیز نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ کسی مسلمان کا ایمان اس وقت کامل نہیں سمجھا جائے گا جب تک کہ وہ اپنے بھائی مسلمان کے لئے اس چیز کو پسند نہ کرے جس کو خود اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
" چیز" سے مراد دنیا و آخرت کی بھلائی ہے چنانچہ ایک روایت میں من الخیر کا لفظ صریح طور پر منقول ہے رہی یہ بات کہ دنیا و آخرت کی بھلائی کا تعلق کن چیزوں سے ہے تو آخرت کی بھلائی یہ ہے کہ نیک اعمال اور اچھے احوال کی سعادت نصیب ہو، خاتمہ بخیر ہو قبر کی سختیوں قیامت کے دن کی باز پرسی اور دوزخ کے عذاب سے نجات حاصل ہو اپنے اعمال صالحہ کے سبب سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جنت میں اعلی درجات میں اور اللہ اور اللہ کے رسول کی خوشنودی حاصل ہو اسی طرح دنیا کی بھلائی یہ ہے کہ عزت و آبرو اور نیک نامی و خوش حالی کی زندگی نصیب ہو اور مال دولت اور اسباب و راحت حاصل ہو اچھے احوال و کردار کے حامل اہل خانہ اور صالح و فرمانبردار اولاد کی نعمت ملے اور یہ سب چیزیں آخرت کا وسیلہ بنیں جو مسلمان دنیا و آخرت کی ان نعمتوں اور بھلائیوں کو اپنے لئے چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ انہیں دنیاوی و اخروی نعمتوں اور بھلائیوں کو سارے مسلمانوں کے لئے چاہے کیونکہ یہی کمال ایمان بھی ہے اور دینی اخوت کا تقاضا بھی۔
اگر یہ کہا جائے کہ جو مسلمان محض شیطان کے فریب، نفسانی حرص اور و فساد و باطن کی وجہ سے اپنے لئے دنیا کے مال و زر اور دنیا کی جاہ کے طلب گار و خواہش مند ہوتے ہیں اور اس مال و جاہ کا نتیجہ گناہ و معصیت فتنہ و فساد ،ظلم و جور اور آخرت کے وبال و عذاب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا تو وہ اس مال و جاہ کی خواہش کسی دوسرے کے لئے کیسے کر سکتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو مال و زر جو جاہ و حشمت دین کے نقصان اور آخرت کے عذاب کا باعث ہو تو اس کو خیر و بھلائی کے زمرہ میں شمار ہی نہیں کیا جا سکتا، لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے مال و زر اور جاہ و حشمت کو نہ تو اپنے لئے پسند کرے اور نہ کسی دوسرے مسلمان کے لئے تاہم اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ مال و دولت اور جاہ حشمت بجائے خود برائی نہیں ہیں اور نہ یہ ہر حالت میں برائی تک پہنچانے کا سبب بنتے ہیں بلکہ ان کے تعلق سے برائی یا بھلائی کا دار و مدار خود انسان کے ذہن و مزاج اور اس کی طبعی خاصیت پر ہوتا ہے ایک شخص ایسا ہوتا ہے کہ وہ محض مال و دولت اور جاہ حشمت کی وجہ سے نیکی بھلائی کے بڑے سے بڑے درجہ پر پہنچ جاتا ہے اور جاہ حشمت کا حصول ثواب آخرت اور قرب مولیٰ کا سبب بنتا ہے جیسے مال و زر کے ذریعہ حج کرنا اور فقراء مساکین کی خبرگیری کرنا اور جاہ و حشمت کے ذریعہ عدل و انصاف قائم کرنا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو پوری طرح کرنا اس کے برخلاف اگر وہی جاہ حشمت دوسرے شخص کے لئے دینی فائدے کے بجائے نقصان کا موجب بنتی ہے جیسے اس مال جاہ کے ذریعہ فسق و فجور کا ارتکاب فتنہ و فساد اور ظلم و جور کی گرم بازاری تو اول الذکر شخص کا اس مال و جاہ کو اپنے لئے پسند کرنا اور دوسرے شخص کے لئے پسند نہ کرنا درست ہوگا کیونکہ اس مال و جاہ کو اس کے حق میں خیر نہیں کہا جائے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں