مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ ممنوع چیزوں یعنی ترک ملاقات انقطاع تعلق اور عیب جوئی کا بیان ۔ حدیث 941

اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر باہمی میل ملاپ اور محبت رکھنے والوں کی فضیلت

راوی:

وعن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن من عباد الله لأناسا ما هم بأنبياء ولا شهداء يغبطهم الأنبياء والشهداء يوم القيامة بمكانهم من الله . قالوا يا رسول الله تخبرنا من هم ؟ قال هم قوم تحابوا بروح الله على غير أرحام بينهم ولا أموال يتعاطونها فوالله إن وجوههم لنور وإنهم لعلى نور لا يخافون إذا خاف الناس ولا يحزنون إذا حزن الناس وقرأ الآية ( ألا إن أولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون ) رواه أبو داود ورواه في شرح السنة عن أبي مالك بلفظ المصابيح مع زوائد وكذا في شعب الإيمان

" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں سے کتنے ہی لوگ یعنی اولیاء اللہ ایسے ہیں جو اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور شہید نہیں ہیں لیکن قیامت کے دن اللہ کے نزدیک ان کے مراتب و درجات دیکھ کر انبیاء اور شہداء ان پر رشک کریں گے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمیں بتائیے کہ وہ کون لوگ ہوں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ ہیں جو اللہ کی روح یعنی قرآن کریم کے سبب آپس میں میل جول محبت رکھتے ہیں حالانکہ ان کے درمیان کوئی ناطہ رشتہ نہیں ہے جس کا تقاضا انہیں ایک دوسرے سے محبت کرنے پر مجبور کرے اور نہ مال دولت کی لین دین کا معاملہ ہوتا ہے (حاصل یہ ہے کہ ان کی باہمی محبت اور آپس کے اتحاد و میل جول کی بنیاد کسی دنیاوی غرض و وسیلہ پر نہیں ہوتی بلکہ محض اللہ کی رضا و خوشنودی اور تعلیمات قرآنی کی اتباع پر ہوتی ہے قسم ہے اللہ کی قیامت کے دن ان کے چہرے نورانی ہوں گے، یا وہ مجسم نور ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر یا نفس نور پر متمکن و مستولی ہوں گے وہ لوگ اس وقت بھی خوف زدہ نہیں ہوں گے جب دوسرے لوگ خوف میں مبتلا ہوں گے اور وہ اس وقت بھی غمگین نہیں ہوں گے جب کہ دوسرے لوگ غمگین و رنجیدہ ہوں گے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو اللہ کا دوست کرنے اور ان سے خوف و حزن کی نفی کرنے کے لئے بطور دلیل یہ آیت فرمائی ، آیت (اَلَا اِنَّ اَوْلِيَا ءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ) 10۔یونس : 62)۔ آگاہ رہو کہ اللہ تعالیٰ دوستوں پر نہ تو خوف طاری کرے گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور بغوی نے شرح السنہ میں اس روایت کو بالفاظ مصابیح ابومالک سے روایت کیا ہے لیکن اس میں کچھ الفاظ کا اضافہ بھی ہے اور اس طرح باضافہ الفاظ اس روایت کو بہیقی نے بھی شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

تشریح
انبیاء اور شہداء بھی ان پر رشک کریں گے کے بارے میں پچھلی حدیث کی تشریح کو سامنے رکھ لینا چاہیے اور ایک خاص بات یہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ انبیاء سے وہ نبی اور پیغمبر مراد ہیں جو زندگی میں کسی عذر یا کسی اور سبب سے باہمی ملاقات کا موقع نہ پا سکے ہوں گے ورنہ جہاں تک نفس محبت وہم نشینی کا تعلق ہے ایسا کوئی نبی اور پیغمبر نہیں گزرا جو اللہ کی خاطر اپنی امت کے لوگوں سے محبت و تعلق نہ رکھتا ہو اور ہم نشینی سے محروم رہے ہوں گے۔
" روح" را کے پیش کے ساتھ اصل میں تو اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ جسم زندہ رہتا ہے یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس جوہر کو کہتے ہیں جس کے سبب زندگی کو بقا حاصل ہوتی ہے اور یہاں روح سے مراد قرآن کریم ہے چنانچہ قرآن کریم میں روح کے معنی قرآن کے بھی آئے ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ، آیت (وکذالک اوحینا الیک روحا من امرنا)، اور اس اعتبار سے بھی قرآن کو روح کہنا نہایت موزوں ہے کہ جس طرح جسم و بدن کی زندگی کا مدار روح پر ہے اسی طرح قلب انسان کی حیات کا مدار قرآن پر ہے۔قرآن کو باہمی میل جول محبت کا سبب قرار دینا یا تو اس اعتبار سے ہے کہ قرآن کریم کو نظام زندگی کا اساس قانون ماننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے باہمی محبت و موانست کی دولت حاصل ہوتی ہے کیونکہ قرآن کریم کی تعلیمات ، محبت موانست کی دولت حاصل ہوتی ہے کیونکہ قرآن کریم کی تعلیمات، محبت و موانست کا ذریعہ اور مومنین کو باہمی میل ملاپ اور اتحاد و یکجہتی اختیار کرنے کی ہدایت دینے والی ہے۔ بعض حضرات نے روح اللہ کی مراد قرآن کے بجائے خود محبت کو قرار دیا ہے ان کے نزدیک محبت پر روح کا اطلاق اس سبب سے موزوں سے ہے کہ محبت بھی قلب انسان کی حیات و نشاط اور تازگی کا سبب ہے اسی لئے محبوب کو جان من کہا جاتا ہے۔
مشکوۃ کے بعض نسخوں میں یہ را کے زبر کے ساتھ یعنی روح اللہ منقول ہے جس کے معنی رحمت اور رزق کے ہیں بہرحال مال و ماحاصل کے اعتبار سے معنی میں کوئی فرق نہیں مطلب سب کا ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنا۔
بالفاظ مصابیح یہ روایت جس طرح نقل کی وہ یوں ہے۔
" حضرت ابومالک اشعری کہتے ہیں کہ ایک دن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا اس وقت آپ نے فرمایا اللہ عزوجل کے بعض بندے ایسے ہیں جو اگرچہ انبیاء اور شہداء نہیں ہیں لیکن قیامت کے دن اللہ کے نزدیک ان کا مرتبہ و مقام دیکھ کر ان کی رفعت شان دیکھ کر انبیاء اور شہداء بھی ان پر رشک کریں گے یہ سن کر ایک اعرابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمیں بتائیں کہ وہ کون لوگ ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اللہ کے بندے ہیں جن کا تعلق مختلف شہروں اور مختلف قبائل سے ہوتا ہے ان کے درمیان کوئی رشتہ ناتا بھی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ایک دوسرے سے تعلق محبت قائم رکھنے پر مجبور ہوں اور نہ وہ ایک دوسرے سے اپنا مال اور روپیہ پیسہ خرچ کرتے ہیں جس سے ان کے درمیان تعلقات قائم ہوں مگر وہ محض اللہ کی روح یعنی قرآن کریم کے سبب آپس میں میل جول محبت رکھتے ہیں قیامت کے دن ان کے چہرے نور کے ہوں گے اور وہ عرش الٰہی کے نیچے ان کے لئے نور کے منبر رکھے جائیں گے (جن پر وہ متمکن ہوں گے۔)

یہ حدیث شیئر کریں